|

وقتِ اشاعت :   January 8 – 2020

اسلام آباد/کوئٹہ : ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یا فتہ علاقہ جات کے مسائل نے فیڈرل لیویز کو ضم نہ کرنے، افغان مہاجرین کیلئے حج کوٹہ الاٹ کرنے اور افغان مہاجرین کو ملک بھر میں سفر کرنے کی سفارش کرتے ہوئے افغان مہاجرین کیلئے مکمل اور جاری اسکیموں کی ضلع وائز تفصیلات طلب کر لیں۔ فنکشنل کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہوا۔

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں 24مئی 2019کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے علاوہ افغان مہاجرین کی تعداد، اسٹیٹس، مستقبل کے منصوبہ جات اور گزشتہ پانچ سالوں میں صحت، رہائش اور شناختی کارڈ کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

فنکشنل کمیٹی کو چیف کمشنر افغان پناہ گزیر سلیم خان نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں تقریبا 28لاکھ افغانی رہائش پذیر ہیں جن میں سے 14لاکھ ر جسٹرڈ، 8.5لاکھ افغان شہریت کارڈ رکھنے والے اور 5لاکھ بغیر کاغذات والے رہ رہے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 32فیصد افغانی کیمپوں میں اور 68فیصد کیمپوں کے باہر شفٹ ہو چکے ہیں۔

رجسٹرڈ افغانیوں میں سے 58فیصد صوبہ خیبر پختونخواہ، 23فیصد بلوچستان، 11فیصد پنجاب، 4.5فیصد سندھ اور 2.4فیصد اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 82فیصد افغانی 1979-80میں پاکستان آئے تھے۔ افغان فیملی کا سائز 7.2افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 74فیصد پاکستان میں پیدا ہوئے اور ان میں سے 70فیصد 24سال سے کم عمر کے ہیں۔ نوجوان نسل بڑا چیلنج ہے ان کی تیسری نسل یہاں پیدا ہو رہی ہے۔

جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑنے کہا کہ انڈیا، چین سمیت دیگر 15ممالک کے لوگوں کو یہاں شہریت دی گئی ہے مگر جو بچے پاکستان میں پیدا ہو رہے ہیں ان کو شہریت نہیں دی جا رہی یہ اقوام متحدہ کے ادارے کے رولز کے منافی ہے جہاں پیدا ہونے والے بچوں کا بنیادی حق ہے کہ انہیں شہریت ملنی چاہئے۔ سینیٹر حاجی مومن خان آفریدی نے کہا کہ بے شمار افغانیوں نے یہاں شادیاں کر رکھی ہیں اس مسئلے کو بھی دیکھا جائے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پہلے افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے اقوام متحدہ سمیت مختلف ممالک سے امداد ملتی تھی اب صرف 4.4ملین ڈالر ملتے ہیں جو یو این ایچ سی آر فراہم کرتا ہے۔ موجودہ حکومت سپورٹ پروگرام کے تحت ایک اسکیم شروع کر رہی ہے جس کے تحت افغانیوں کی واپسی کیلئے ان کی مزید مدد کی جائے گی۔ فنکشنل کمیٹی نے افغان مہاجرین کیلئے ضلع وائز کیمپوں اور ان میں فراہم کردہ سہولیات کی تفصیلات طلب کر لی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ مختلف اقسام کی پانچ پالیسوں کے تحت افغانیوں کو واپس بھیجنے کیلئے پروگرام بنائے جا رہے ہیں انہیں زبردستی بھی واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور یو این ایچ سی آر مل کر بھی پروگرا م بنا رہے ہیں جس کے تحت لوگوں کو واپس بھیجنے کیلئے ساز گار ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان نے40سالوں سے افغان مہاجرین کو مہمانوں کی طرح رکھا ہوا ہے۔

اسکولوں، ہسپتالوں، ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں یکساں سلوک برتا کیا جاتا ہے تمام افغانیوں کی خواہش ہے کہ افغانستان میں حالات بہترہونے پر افغانستان واپس چلے جائیں گے اور افغان حکومت بھی چاہتی ہے کہ ان کے بغیر افغانستان نا مکمل ہے۔