|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2020

نئی دہلی میں مسلم کش فسادات کے دوران مسلمانوں پر ہوئے مظالم پر بھارتی میڈیا بھی بول پڑا۔

ایک بھارتی اخبار نے دلی فسادات کے حوالے سے دل دہلا دینے والی رپورٹ شائع کی جس میں انتہا پسندوں کے مسلمانوں پر بہیمانہ حملوں کے طریقوں کو نازی جرمنی سے بھی جدید قرار دے دیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2020 میں ہندوستانی نازی جرمنوں کے مقابلے میں جدید ہو رہے ہیں۔

 مودی حکومت اور بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا کہ ہمیں گیس چیمبروں کی ضرورت نہیں ہے، ہم انسانوں کو سینکنے کے لیے گھروں کو تندوروں میں بدل دیتے ہیں۔

دوسری جانب بھارت کے نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین نے دلی فسادات کے دوران پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیئے۔

انہوں نے کہا  کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا، دارالحکومت دہلی میں پولیس کی ناکامی باعث تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ پولیس ناکارہ ہے یا تشدد سے نمٹنے کے لیے حکومتی کوششوں کا فقدان ہے۔

جب کہ   ایک بھارتی طالبہ نے بھی بتایا کہ نئی دہلی میں مسلم کش فسادات کے لیے پولیس نے بیرون شہر سے لوگ بلائے، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس حملہ آوروں کی مدد کرتی رہی۔

بھارتی طالبہ کا کہنا تھا کہ بلوائیوں کو نئی دہلی کے راستے بھی معلوم نہیں تھے، پولیس انہیں راستے بتا رہی تھی۔

طالبہ کا کہنا تھا کہ اگر پولیس چاہتی تو مظاہروں کو چند گھنٹوں میں ہی ختم کر سکتی تھی لیکن گجرات کی طرح نئی دہلی میں بھی غنڈوؤں کو تین روز دیئے گئے۔

یاد رہے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر انتہاپسند ہندؤں کے حملوں میں کم از کم 42 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے”