|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2020

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ روز ڈیمز کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، وزیراعلیٰ نے صوبے میں تعمیر ہونے والے تمام ڈیموں کے ساتھ پچاس سے سو ایکٹر رقبہ جنگلات لگانے کے لئے مختص کرنے اور اسے باقاعدہ منصوبے کا حصہ بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہر علاقے کی موزونیت کے مطابق شجر کاری کرکے ماحولیاتی تحفظ کے لئے گرین ہاؤس کے اثرات پیدا کئے جاسکیں گے، وزیراعلیٰ نے ڈیموں کے کمانڈ ایریا کی سرکاری اراضی کو زرعی مقاصد کے استعمال کے لئے لیز پر دینے کی ہدایت بھی کی۔

جبکہ انہوں نے مستقبل میں کوئٹہ کیلئے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مانگی ڈیم کی جلد تکمیل اور کچھ ڈیم کے مجوزہ منصوبے کے ساتھ ساتھ دیگر موزوں مقامات پر ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے تجویز کرنے اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کی فزیبیلیٹی اسٹڈی تیار کرنے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ڈیموں کی تعمیر سے زراعت، مالداری اور آبنوشی کے شعبوں کی ترقی ہوگی جس سے معیشت میں بہتری آئے گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، وزیراعلیٰ نے ڈیموں کے کمانڈ ایریا کی ترقی کے عمل کو بھی تیز کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان بنیادی طور پر خشک سالی کا شکار ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ بارانی علاقہ ہے جہاں زراعت اور مالداری کا انحصار بارشوں پر ہے تاہم ڈیم نہ ہونے کے باعث بارشوں اور سیلاب کا پانی ضائع ہوجاتا ہے، اسٹوریج اور چیک ڈیموں کی تعمیر سے نہ صرف پانی کو ذخیرہ کرنا ممکن ہوسکے گا بلکہ زیر زمین پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ سیکریٹری آبپاشی نے اجلاس کو زیر تعمیر بڑے ڈیموں کے منصوبوں کی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اورماڑہ میں 9636ملین روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے بسول ڈیم کا 78فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے۔

جہاں سے اورماڑہ ٹاؤن اور جناح نیول بیس کو بذریعہ پائپ لائن پانی کی فراہمی شروع کردی گئی ہے اور کمانڈ ایریا کی ترقی کے لئے واٹر کورسز کی تعمیر کا کام جاری ہے، انہوں نے بتایا کہ خاران میں 10512ملین روپے کی لاگت سے گروک ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے، ڈیم میں 51540ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا اور کمانڈ ایریا کی 12500ایکٹر اراضی قابل کاشت بنائی جاسکے گی۔ انہوں نے بتایا کہ قلعہ سیف اللہ میں 4345ملین روپے کی لاگت سے زیر تعمیر طوئے ور بتوزئی ڈیم آئندہ سال جون میں مکمل کرلیا جائے گا جس کا کمانڈ ایریا 16500ایکڑ ہے، انہوں نے بتایا کہ وندر ڈیم پر بھی جلد کام کا آغاز ہوگا، اس ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ہائیڈرو پاور پلانٹ کے قیام کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔

سیکریٹری آبپاشی نے کوئٹہ کے گردونواح اور صوبے کے دیگر علاقوں میں سو ڈیمز پروجیکٹ کے تحت تعمیر ہونے والی ڈیموں کی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے ڈیموں کے سیٹلائٹ امیجز بھی پیش کئے اور مختلف مجوزہ ڈیموں کے منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔موجودہ حکومت اگر بلوچستان کے اس اہم نوعیت کے مسئلہ کو حل کرنے میں کامیاب ہوا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ پانی بحران سے نہ صرف نمٹاجاسکے گا بلکہ زراعت کے شعبہ میں معاشی انقلاب آئے گا کیونکہ بلوچستان کی ایک بڑی آمدنی اور لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔

مگر ڈیموں پر خاص توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہردس سال بعد بلوچستان کوشدید قحط کا سامنا کرناپڑتا ہے۔دوردرازعلاقوں کے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اگر ڈیموں کی تعمیرکو یقینی بنایا گیا تو پانی کی قلت جیسے سنگین مسائل سے عوام کو چھٹکارامل جائے گا۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈیمز پروجیکٹ کو پایہ تکمیل پہنچاکر عوام کا ایک دیرینہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہوجائینگے۔