|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2020

لبنان کے وزیراعظم اپنی پور ی کابینہ سمیت مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے اس بات کا اعلان قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کرپشن کی جڑیں ریاستی نظام سے زیادہ مضبوط ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیاسی طبقوں نے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں گزشتہ ہفتے ہونے والے دھماکوں کے بعد لبنان کی پوری حکومت نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ لبنان میں دھماکوں کے بعد ہونے والے حکومت مخالف پُر تشدد مظاہروں اور ہلاکتوں کے بعد لبنانی وزیراعظم حسن دیاب نے یہ فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ 4 اگست 2020 ء کی شام خطرناک دھماکوں نے لبنان میں قیامت برپا کر دی تھی۔ چند لمحوں میں ہنستا بستا شہر قبرستان کا منظر پیش کرنے لگا۔

اداروں کے مطابق بیروت بندرگاہ میں دھماکے ویئرہاؤس میں رکھے ہزاروں کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ہوئے تھے۔لبنان کے دارالحکومت میں ہونے والے دھماکوں سے جاں بحق افراد کی تعداد 145 سے بڑھ گئی تھی جبکہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔گزشتہ روز لبنان میں دھماکوں کے بعد حکومت مخالف پُرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ پولیس اورمظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران ایک اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔ مظاہرین نے لبنان کے مرکزی بینک میں داخل ہونے کے بعد عمارت میں توڑ پھوڑ کی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔

ہزاروں مظاہرین نے دفترخارجہ کی عمارت میں بھی داخل ہونے کے بعد صدر مائیکل اون کے پوٹریٹ کو آگ لگا دی تھی۔پُرتشدد مظاہروں کے بعد لبنانی وزیر اعظم نے ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ لبنانی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ عام انتخابات کے بغیر ملک میں جاری عدم استحکام پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ اندرون خانہ لبنان کے معاملات جو بھی ہو ں مگر اس اہم پہلو کی جانب ضرور توجہ جاتی ہے کہ ایک وزیراعظم خود کرپشن کے حوالے سے کھل کر اظہار کررہے ہیں اور دھماکوں کی وجوہات بھی اسی کے ساتھ جوڑرہے ہیں۔

اور پھر مزید یہ کہ دوقدم آگے بڑھ کر اپنے عہدے سے مستعفی تک ہونے کافیصلہ کیا اور انتخابات کو ہی استحکام قراردیا۔ شاید ہی دنیا کے چند ایسے ممالک ہیں جہاں پرحکمران اپنے عہدے سے زیادہ ملکی استحکام کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وہاں کے عوام کیلئے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں جبکہ تیسری دنیا کا حال یہ ہے کہ کرسی تک رسائی کیلئے تمام حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور ایک شہنشاہیت جیسا مائنڈ سیٹ بناہوا ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد وہ پوری سلطنت کا مالک بن جاتا ہے، انہیں عوامی خواہشات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔یہی عالم ہمارے یہاں بھی ہے۔

کسی ایک دور کی مثال دی جائے کہ کرپشن کے الزامات پر کسی ایک معمولی آفیسر نے عزت اور وقار کو ترجیح دیتے ہوئے مستعفی ہوکر الزامات کا سامنا کیا ہو، بالکل بھی نہیں بلکہ دباؤ بڑھایاجاتا ہے اثرورسوخ یہاں تک استعمال کی جاتی ہے کہ تمام تر مشینری اور تعلقات کو اپنی کرسی بچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور ہر طرح سے کرپشن کرتے ہوئے مدرپدر آزاد انہ دھندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہردور میں کسی بھی وزیر کے محکمہ میں کرپشن کے واضح ثبوت بھی سامنے آئے مگر انہوں نے کرسی نہیں چھوڑا، سانحات رونما ہوئے،انسانی جانیں چلی گئیں مگر عہدے سے مستعفی ہونے کی بجائے حادثات اور سانحات کو الگ رنگ دیکر پیش کیا گیا تو پھر بڑے عہدوں پر بیٹھی شخصیات کہاں اپنی غلطیوں تسلیم کرینگے۔

ہمارے یہاں روایت بن چکی ہے کہ اپنی غلطی چھپانے کیلئے ماضی کی مثالیں دی جاتی ہیں مگر اچھی روایت کو پروان چڑھانے کیلئے کسی صورت کرسی کی قربانی نہیں دی جاتی کیونکہ ان کی آن اور شان اسی کرسی کے ساتھ جڑا ہے جو ایک بار ملنے کی امید ہوتی ہے،دوبارہ اپنی کارکردگی سے ہی اس قدر غیر مطمئن دکھائی دیتے ہیں کہ عوام ہمیں ووٹ نہیں دے گی۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خود دھاندلی کا اعتراف کرتی ہیں کہ کس طرح سے انتخابات میں نتائج کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔بہرحال وہی معاشرے اور سماج حقیقی تبدیلی کی طرف جاتے ہیں۔

جہاں اصول اور حقائق کی مان رکھی جاتی ہے جس کی ایک جھلک لبنان میں دکھائی دی۔ خدا کرے کہ سیاستدان عوام کے خیرخواہ بنتے ہوئے حقائق کا سامنا کرتے ہوئے ملک کے اندر حقیقی معنوں میں تبدیلی لائیں تاکہ ملک حقیقی طور پر کرپشن سے نہ صرف پاک صاف ہوجائے بلکہ ہم ایک بہترین جمہوریت کی طرف بڑھ سکیں۔