|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2020

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف کو 9 روز میں سرینڈر کرنے کا حکم دیدیا جبکہ سابق وزیراعظم کی صحت سے متعلق حکومت سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔عدالت نے نوازشریف کی العزیزیہ اسٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 10 ستمبر جبکہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں پر سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر ایون فیلڈ کیس میں اس وقت ضمانت پر ہیں جبکہ نوازشریف نے العزیزیہ اسٹیل ملز میں سزا کے خلاف اپیل کررکھی ہے۔نیب نے بھی العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی سزا بڑھانے کے لیے اپیل کررکھی ہے۔

احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کو بری کردیا تھا جس پر نیب نے ان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔احتساب عدالت نے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے، مریم نواز کو7 سال قید اور جرمانے اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تھا اور عدالت نے ان کی سزائیں معطل کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی پیشی پر عدالت پہنچنے پر مریم نواز نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مکافات عمل تو شروع ہونا ہی تھا۔

کیونکہ ہر چیز کا اپنا وقت ہے،میں نے تو سوچا تھاکہ حکومت اتنا نیچے آنے میں 5 سال لے گی لیکن حکومت نے اپنا جو نقصان پانچ سال میں کرنا تھا وہ 2 سال میں ہی کر بیٹھی۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہم نواز شریف کی ہدایت پر عمل کریں گے، ان کا لندن میں علاج چل رہا ہے، وہ وطن واپس آنے کے لیے بہت بے چین ہیں لیکن میری نواز شریف سے ضد ہو گی کہ جب تک علاج نہیں ہو جاتا واپس نہ آئیں۔بہرحال اس وقت نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے وفاقی حکومت زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے گزشتہ چند روز سے وفاقی حکومت کی جانب سے ان کی واپسی کے حوالے سے زور دیاجارہا ہے۔

حکومتی عہدیداران کا مؤقف ہے کہ نوازشریف بیماری کا بہانہ بناکر باہر بیٹھ کر آرام کی زندگی گزار رہے ہیں جب انہیں کیسز کا سامنا کرناپڑتا ہے تو وہ بیماری کا بہانہ بناتے ہیں اور لگتا ہے اب دوبارہ نوازشریف بیمار ہوجائینگے۔ ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آرہے ہیں مقتدرحلقوں میں دو الگ رائے نوازشریف کی واپسی کے حوالے سے پائی جاتی ہیں جس میں ایک یہ ہے کہ نوازشریف باہر ہی بیٹھے رہے اور ملک واپس نہ آئے تاکہ سیاسی حوالے سے نیا دنگل نہ سجے اور موجودہ حکومت کیلئے مشکلات کا باعث نہ بنے۔

کیونکہ مریم نواز کی پیشی کے دوران یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ن لیگی کارکنان کی بڑی تعداد جوش کے ساتھ میدان میں دکھائی دے رہی ہے اگر نواز شریف واپس آجاتے ہیں تو سیاسی ماحول زیادہ گرم ہوسکتا ہے اور حالات الگ رخ اختیار کرسکتے ہیں۔مگر دوسری جانب یہ سوچ بھی سامنے آرہی ہے کہ اس سے قبل جب نوازشریف ملک میں موجود تھے تو ان کی پیشی کے دوران بھی اسی طرح کا ماحول رہا ہے اور جلسہ جلوس بھی ہوتے رہے ہیں جس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔اب اگر وہ واپس آئینگے تو کوئی بڑی مشکل نہیں ہوگی۔البتہ اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس وقت اپوزیشن کی ایک خلاء موجود ہے۔

اور اگرخاص کر پنجاب جو کہ بڑا صوبہ ہے وہاں کی بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن متحرک ہوجاتی ہے اور نوازشریف وطن واپس آجاتے ہیں تو سیاسی حوالے سے ایک دنگل ضرور سجے گا تبدیلی آئے یا نہ آئے مگرسیاسی دنگل ضرورلگے گا البتہ اس کے سیاسی فوائد اور نقصانات کا پیشگی کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ سیاسی حالات کس کے حق میں جاتے ہیں۔