|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2020

بلوچستان کے مسائل اس قدر ہیں کہ ان پر ہر روز کالم لکھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ایک مسئلہ کے حل کی نوید حکومتیں سنادیتی ہے تو نصف درجن کے قریب مسائل پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ عوام ایک مسئلہ کے حل کی نوید سن کر پھولے نہیں سماتے کہ کم از کم کسی حکومتی شخصیت کے منہ سے یہ خوشخبری تو ملی کے اس اکلوتے مسئلے کے حل سے بلوچستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوگئیں پھر لوگ یہ مسئلہ بھول جاتے ہیں حکمران بھی اپنی اپنی ترجیحات کی جانب اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اللہ اللہ خیر سلا، آزادی کے اندرونی صفحات میں محترم عتیق صدیقی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ صحافت کے طالب علموں کو پڑھایاجاتا ہے کہ حکومتیں اپنی کوتائیاں چھپانے کیلئے جھوٹ بولتی ہیں اس لئے صحافی کی اولین ذمہ داری لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جھوٹ کم اور سچ زیادہ ہوتا تھا۔ لیکن آج کل تو ہر حکومت نے اپنی جماعت کے توسط سے میڈیا سیل بنائے ہوتے ہیں جو جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرتے ہیں یہ طولیٰ رکھتے ہیں۔ ڈِس انفارمیشن اور دروغ گوئی کا پرچار کرنے والے خود ساختہ ماہرین اپنے ممدوح کو مسیحا بنا کر پیش کرنے کیلئے ایسی فسانہ طرازی کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ نابقے اور عرغان بادغا ہونیکا دعویٰ کرتے ہیں جنہیں ہوا کا رخ پہلے سے معلوم ہوتا ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر حکمران کو ایسے مداحون مدافعت کاروں اور نیازمندوں کا غول میسر ہوتا ہے جو اس قوم کی اُمنگوں کا ترجمان بنا کر پیش کرتا ہے ان مدح خوانوں کی من پسند ہتھیاروں میں مذہبی جنون قوم پرستی، شاؤنزم اور جعتی رجحانات شامل ہوتے ہیں۔

ان کا مقصد ایک ایسا Informational Claos یا His information Prubble تخلیق کرنا ہوتا ہے جس میں پھنس کر لوگ حقائق تک رسائی حاصل نہ کرسکیں یہ وابستگان سرکار احتساب مواخذے اور اخلاقی گرفت کا ڈھول بجا کر لوگوں کو حقائق سے بیگانہ کردیتے ہیں ان کی حکومت کتنی ہی نا اہل اور نا قابل اعتبار کیوں نہ ہو یہ اسے باصلاحیت، شفاف اور عوام دوست بنا کر پیش کرنیکا فن بخوبی جانتے ہیں ان کے دروغ اور مصلحت آمیزی کے بارے میں کیا جاسکتا ہے کہ ہوس لقمہ تر کھاگئی لہجے کا جلال، اب کسی حرف کی حرمت نہیں ملنے والی آجکل ہمارے پورے ملک میں ایسی صورتحال ہے سابقہ حکومتوں کی طرح موجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ ڈھنڈورا پیٹتی نظر آتی ہیں کہ سابق حکومتیں انتہائی نا اہل اور موجودہ حکومتیں انتہائی اہل اور عوام دوست ہیں۔

ان کا کام انکے وزراء کی کارکردگی قابل رشک، سابقہ وزراء اور حکومتوں کی کارکردگی قابل نفرت رہی وغیرہ وغیرہ، جب ہم اس بارے میں عوام سے اس بارے میں ان کی رائے لینا چاہیں تو لوگ ایک عجب بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے انتہائی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ موجودہ حکمران اور حکومتیں انتہائی درج کے نا اہل اور ناپسندیدہ شخصیتیں ہیں ان سے تو ان کے ان کے پیش رو حکمران اور حکومتیں قابل رشک تھیں لوگوں کے مسائل اگر تھے تو اس قدر نہ تھے جتنے کہ آج کل ہیں جہاں تک بلوچستان کے حکمرانوں اور حکومتوں کا تعلق ہے یہاں بھی صورتحال مختلف نہیں حکومتی ایوانوں سے ایسے افراد اب تو لاٹ کے حساب سے دستیاب ہیں۔

جنکا کوئی دین و دھرم نہیں یہ ہر آنیوالی حکومتوں کاخیر مقدم کرتے ہوئے اپنی انٹری کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں جو شخصیتیں ایک کونسلر کا سی جیتے کی سکت نہیں رکھتی وہ ماشاء اللہ ان نئی وارد ہونیوالی جماعتوں میں اچھی پوزیش