|

وقتِ اشاعت :   September 10 – 2020

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ کراچی پر سیاست کی تو پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی دونوں کو جوتے پڑیں گے۔کام نہ کرنا ہوتو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ سندھ حکومت کے700 ارب روپے کے منصوبے ہیں تو شروع کرے کراچی انتظار کر رہا ہے۔ تقریریں اور بیانات سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اسد عمر نے کہا کہ کراچی کیلئے ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کرنا پہلی ترجیح ہے۔ کے فور منصوبہ اب وفاقی بجٹ سے تعمیر ہوگا اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کو خط بھی بھیجا جائے گا۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ جے سی سی کے ایجنڈے اور اجلاس کی حتمی تاریخ پربات چل رہی ہے۔

اسد عمر کی زیرصدارت گزشتہ روز بھی کراچی سے متعلق اہم اجلاس ہوا تھا جس میں کراچی کے لیے وفاق سے مکمل کیے جانے والے منصوبوں کے نفاذ پر بات چیت ہوئی۔اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں کراچی بحالی پلان کے ان منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا جن کی ذمہ داری وفاقی حکومت نے لی ہے۔وفاقی وزیر نے اس موقع پر متعلقہ منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے بروقت حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایت کی۔اسد عمر نے ساتھ ہی استفسار کیا کہ نشاندہی کی جائے صوبائی حکومت سے کسی منظوری یا تعاون کی ضرورت ہے یا نہیں؟

انہوں نے کہا کہ منصوبوں پر عمل درآمد کرنے والی ایجنسیاں سہ ماہی مالی ضروریات کی نشاندہی بھی کریں۔وفاقی وزیر نے اجلاس کے شرکاء پر واضح کیا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق ان منصوبوں کو جلدازجلد عملی جامہ پہنانا ہے۔دوسری جانب ترجمان سندھ حکومت نے کہاکہ کراچی میں مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومت کا اسٹیک ہے، سندھ حکومت سیاست سے بالاتر ہوکر وفاق کے ساتھ بیٹھی تاکہ مسائل حل کیے جائیں، ہم کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اچھی نیت سے وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھے اور ماضی کی تمام تلخیوں کو سائیڈ پر رکھ کر وفاق کا ساتھ دیں گے۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھاکہ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے پلان کو پبلک کیا اور وفاق کے سامنے مطالبات رکھے، ہفتے کو اچھے ماحول میں میٹنگ ہوئی جس میں وزیراعظم نے پیکج کا اعلان کیا، جس پریس کانفرنس میں وزیراعظم نے کراچی پیکج کا اعلان کیا اس میں صحافی مدعو نہیں تھے لیکن صحافیوں نے ہم سے پوچھا کہ 1100 ارب میں 800 ارب آپ کے ہیں یا الگ ہیں،انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کریڈٹ لے رہی ہے کہ 62 فیصد وہ انویسٹمنٹ کر رہی ہے لیکن حکومت 62 فیصد فنڈنگ کیسے لائے گی یہ نہیں بتایا گیا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے 802 ارب روپے کا ذکر پہلے کردیا تھا اور سندھ حکومت کی شیئرنگ کے تمام وسائل موجود ہیں، اگر اس پیکج کو بہتر استعمال کرتے ہیں تو اس سے بہت فرق پڑے گا، ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس تفصیل میں جائیں کہ کون کیا کررہا ہے۔وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدہ ماحول حالیہ کراچی پیکج کا نہیں بلکہ پہلے سے بھی دیگرمسائل پر دونوں ایک دوسرے کے مدِ مقابل دکھائی دیتے ہیں مگر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کراچی کے مسائل کا ہے جہاں انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال نے کراچی کاوہ حشر کیا کہ سابقہ دورمیں ہونے والی اسکیمات اور ترقی کے دعوؤں کا پول کھل گیا۔ یہی کراچی پہلے بدامنی کی وجہ سے زیر بحث رہتا تھااور اب انفراسٹرکچر کی خراب تر صورتحال کی وجہ سے شہ سرخیوں کی زینت بنی رہتی ہے۔ کراچی جو پورے ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے افسوس کہ اس کی حالت زار پر اسی کے پیسے نہیں لگائے گئے مگر اب موقع ملا ہے تو اس پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی سیاست کرنے کی بجائے ملکر کام کریں جس پیکج کا اعلان کیا گیا ہے اس کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔

اور رقم کو پیکج کے ڈیزائن کردہ منصوبوں پر خرچ کرنے کیلئے مشترکہ پلاننگ پر عمل کریں۔دونوں اطراف سے یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں سیاست کی بجائے مسائل کے حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر سیاست اب بھی کی جارہی ہے ایک دوسرے پر جملے بازی کا سلسلہ بھی جاری ہے جوکہ اچھی روایت نہیں لہٰذا نیک نیتی کے ساتھ عملاََ سیاسی بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے پر اپنی توانائی صرف کی جائے اور یہ پیسہ عوام کا ہی ہے اور انہی پر اس کو خرچ کرتے ہوئے۔

انہیں مسائل سے نکالاجائے۔کراچی پیکج کی کامیابی کا سہرا دونوں کے ہی سر جائے گا، سیاست سے گریز کرتے ہوئے ہم آہنگی کے ساتھ کام کیاجائے وگرنہ مسائل جوں کے توں رہینگے اور خدانخواستہ دوبارہ طوفانی بارش یا دیگر قدرتی آفت کا سامنا کرناپڑا تو ذمہ داری دونوں پر عائد ہوگی جس سے کوئی بری الذمہ نہیں ہوگا۔