|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2020

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے انتھک کوششوں کے ذریعے افغان امن عمل کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔وزیراعظم عمران خان نے بین الافغان مذاکرات کے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ کوششوں سے وہ دن آن پہنچا جس کا افغان عوام کو انتظار تھا،
40 سال سے افغان عوام تنازعات اور خون ریزی سے دوچار تھی۔پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جانی ومالی نقصان اٹھایا، شروع دن سے میرا یہی مؤقف تھا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں، اس کا واحد حل مذاکرات اور سیاسی تصفیہ ہے۔ خطے میں امن کیلئے افغان مفاہمتی عمل کی کامیابی ناگزیر ہے۔وزیراعظم نے امیدکااظہارکیا کہ فریقین اپنے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے اور مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے ثابت قدم رہیں گے جبکہ امن و ترقی کے سفر میں پاکستان افغان عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا، آج ہم اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
افغان رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ملکر سیاسی تصفیہ کیلئے مثبت انداز میں کام کریں۔واضح رہے کہ افغانستان میں امن کے لیے بین الافغان مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہورہے ہیں۔ دوحہ میں ہونے والے معاہدے نے ایک تاریخ رقم تو کرلی ہے جس میں طالبان اور امریکہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد جنگ بندی کے ساتھ دیگر نکات پر اتفاق کیا گیا۔
یقینا یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا تسلسل جاری ہے چونکہ اس سے قبل جب بھی مذاکرات ہوتے تو جنگ بندی کے ساتھ چند ایک بڑے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے باعث مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوتے گئے مگر اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونگے جو مستقل مزاجی کے ساتھ جاری ہیں۔ عالمی طاقتوں کو اس وقت حالات کی حساسیت کا اندازہ لگانا چاہئے کہ جس طرح دنیا میں معاشی وسیاسی صورتحال تبدیل ہورہی ہے اس کے مطابق مثبت سمت میں پالیسیوں کو لیکر جانے کی ضرورت ہے اور اس کا واحد طریقہ کار گفت وشنید ہے۔
اگر جنگی حالات کا جائزہ لیا جائے کہ جہاں پر بھی طاقت کا استعمال کیا گیا وہاں امن کے قیام میں زیادہ مشکلات پیدا ہوئیں اور اب بھی بعض ممالک عدم استحکام کا شکار ہیں جہاں پر سیاسی ومعاشی صورتحال شدید تنزلی کا شکار ہے جنہیں بہتر کرنے میں دقت کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔
شام، فلسطین،عراق میں حالات اب بھی بہتر نہیں ہیں جس کی بنیادی وجہ جنگی پالیسیاں ہیں،اسی طرح افغانستان میں دہائیوں سے جنگی ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں پر دنیا کے سپرپاور نے مداخلت کرتے ہوئے افغانستان کے ذریعے خطے میں بالادستی کی کوشش میں پنجے گاڑھنے کی کوشش کی مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ جنگ پر اتنے وسائل لگائے گئے کہ معاشی حوالے سے خود عالمی طاقتوں کو نقصان اٹھاناپڑا جو دو صورتوں میں ان کے سامنے ہے ایک مالی اور دوسراجانی۔
اس لئے ضروری ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے مستقل مزاجی اور نیک نیتی سے کام کیا جائے اور اس جانب بارہا اشارہ دیاجارہا ہے کہ چند ممالک افغانستان میں امن نہیں چاہتے وہ وہاں اپنی بالادستی کے خاتمے کے ڈرسے پراکسی کرنا چاہتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد ان کا اثر ونفوذ بڑھتاگیا تو انہوں نے پاکستان میں بھی خونریزی کی جس سے خطے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی۔ لہٰذا عالمی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پراکسی کو روکنے کیلئے بھی اپنا کردار ادا کریں تاکہ افغان عمل خوش اسلوبی سے ایک بہتر اختتام تک جاسکے اور افغانستان کے عوام طویل بدامنی سے نکل کر خوشحالی کی جانب بڑھ سکیں۔