|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2020

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملکی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے ملاقات کی ہے۔عسکری قیادت اور پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات گزشتہ ہفتے ہوئی تھی جس میں عسکری قیادت نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے پر زور دیا تھا۔ عسکری قیادت نے واضح کیا کہ فوج کاملک میں کسی بھی سیاسی عمل سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق نہیں، اس کے علاوہ الیکشن ریفارمز، نیب، سیاسی معاملات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں، یہ کام سیاسی قیادت نے خود کرنا ہے۔ملاقات میں عسکری قیادت نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر فوج ہمیشہ سول انتظامیہ کی مدد کرتی رہے گی۔

ملاقات میں گلگت بلتستان کے انتظامی امور پر بھی بات چیت کی گئی۔دوسری جانب شیخ رشید کا اس ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف نے مولانا فضل الرحمان کے بیٹے سے کہا تھا کہ اگر صدارتی ووٹ لینا ہو تو اسمبلیاں حلال ہو جاتی ہیں اور اگر ناکام ہوں تو اسمبلیاں حرام ہو جاتی ہیں۔شیخ رشید کا کہنا تھا آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں کسی مسئلے میں نہ لائیں، سیاسی معاملات آپ جانیں اور آپ کا کام جانے، سیاست فوج کا کام نہیں۔وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہاکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں سول حکومت بلائے گی تو لبیک کہیں گے۔

ملاقات کے حوالے سے شیری رحمان کاکہنا تھا کہ ہمیں فون آیاکہ عسکری قیادت کوپارلیمانی لیڈرز سے ملناہے اور گلگت بلتستان کے معاملے پر میٹنگ ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے میٹنگ میں کہا کہ وزیراعظم کہاں ہیں؟ اجلاس کی صدارت وزیراعظم کیوں نہیں کررہے؟ وہ ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھے رہے لیکن اجلاس میں نہیں آئے۔سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ میں نے سوال کیاگلگت بلتستان پرمیٹنگ وزیراعظم ہاؤس میں کیوں نہیں ہو رہی؟ پیپلز پارٹی نے اپنی گفتگو گلگت بلتستان پر مرکوز رکھی جب کہ ہم نے نیب کی بات کی نہ اپنی ذات کی بات کی۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی اور عسکری قیادت سے ملاقات کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے میٹنگ تھی، جہاں اسی سے متعلق بات ہوئی جبکہ شاہد خاقان عباسی نے بھی یہی بات دہرائی کہ عسکری قیادت سے ملاقات صرف گلگت بلتستان کے حوالے سے تھی مگر انہوں نے یہ کہاکہ ملاقات کی مکمل تفصیل میرے پاس نہیں ہے البتہ اس تمام تر ملاقات کا اے پی سی سے کوئی تعلق نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ملاقات اے پی سی سے چند روز قبل ہوئی تھی جس میں بلاول بھٹو زرداری اور شہبازشریف بھی شریک تھے۔ بہرحال پارلیمانی لیڈران اور عسکری قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات کا باقاعدہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا ہے۔

اس لئے یہ ملاقات اب میڈیا کی زینت بن چکی ہے۔ شیری رحمان نے عسکری قیادت کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران شیخ رشید کی کہی ہوئی چند باتوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا کہ ان کے علم میں یہ باتیں نہیں ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے سے کیا بات ہوئی تھی چونکہ ایک دو منٹ کیلئے وہ میٹنگ کے دوران باہر گئی تھیں مگر اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی اور انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مزید وہ اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔انہوں نے دبے لفظوں میں طنزیہ طور پر کہاکہ شیخ رشید بات کرسکتے ہیں چونکہ یہ ملاقات اِن کیمرہ تھا اور ہمیں فون کرکے بلایا گیا تھا کہ گلگت بلتستان پر بات کرنی ہے۔

اور ہماری جماعت نے اس ملاقات کے دوران گلگت بلتستان کو ہی فوکس کیاچونکہ یہ ہماری جماعت کے منشور کا حصہ ہے۔ البتہ عسکری قیادت نے پارلیمانی جماعتوں کے سامنے یہ بات رکھ دی تھی کہ سیاسی معاملات پر انہیں درمیان میں نہ لایاجائے جو بھی جماعت حکومت میں آئے گی وہ ان کے ساتھ کام کرینگے۔ اب اس ملاقات کے حوالے سے بعض قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں چونکہ اس ملاقات کے بعد اے پی سی کا جو اعلامیہ جاری ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے سب کی نظریں اس وقت آنے والے سیاسی حالات پر لگی ہوئی ہیں کہ ملکی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی اور اگر اس طرح کی صورتحال بنے گی۔

تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا مگر ایک بات شیخ رشید نے اس ملاقات کے حوالے سے کہی ہے کہ عسکری قیادت کی جانب سے یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جمہوری تسلسل کو جاری رکھا جائے چونکہ جو حالات چل رہے ہیں اگر جمہوری عمل کو نقصان پہنچا تو یہ ملکی مفادمیں نہیں ہوگا اور سیاسی معاملات کو سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیا ہے،آنے والاوقت سیاسی حوالے سے بہرحال ہنگامہ خیز ہوسکتا ہے اور اس میں کون بازی لے جائے گا یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔