|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2020

بلوچستان میں سرکاری شعبوں کے بارے میں بہت کچھ لکھاجا سکتاہے کیونکہ یہ سرکاری ادارے کرپشن اوربد انتظامی سے اس قدر تباہی کے دہانے پر پہنچادئیے گئے ہیں کہ اب ان کی حالت بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی۔سرکاری طورپر تعمیرات سے لے کر ادویات کی خریداری‘ سڑکوں کی پختگی سمیت ہر شعبہ پر نظر دوڑائیے تو برسوں کرپشن کے باعث تباہی و بربادی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ارباب اختیار صرف اور صرف اخبارات یا ٹیلی ویژن کی حد تک ”اچھا ہے اچھا ہے کررہے ہیں“ خود کو بری الذمہ قرار دے کر تمام گند کا ذمہ دار گزشتہ حکومتوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔

اس بھیانک صورت حال کا تجزیہ اس طرح کیا جا سکتاہے کہ جیسے مشہور کہاوت ہے کہ ایک قبرستان میں ایک گورکن سے لوگوں کو یہ شکایت تھی کہ وہ کسی مردہ کو دفنانے کے فوراً بعد اس کا کفن چوری کر لیتا ہے جس کی وجہ سے علاقہ کے لوگ اس کی اس حرکت سے نالاں تھے، اللہ کی قدرت کہ ایک دن اس گورکن کو موت آگئی،لوگوں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے مردے محفوظ رہیں گے لیکن جب اس گورکن نے اپنے والد کی گدی نشینی یعنی گورکن کا ”چارج“ سنبھال لیا تو کچھ عرصہ بعد لوگوں میں یہ شکایت پھیل گئی کہ اب کے آنے والا گورکن اور بھی زیادہ خطر ناک ہے۔

کیونکہ یہ تازہ دم گورکن اپنے باپ کی طرح صرف کفن چوری کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ کفن چوری کرکے اب یہ مردوں میں ایک لکڑی بھی ٹھوک کر جاتا ہے جس سے مردہ کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ علاقہ کے لوگ اس گورکن کے والد کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے ملتے تھے کہ اس لڑکے سے تو اس کا والد اچھا تھا جو صرف کفن چوری کرتا تھا جبکہ اس کا آنے والا لڑکا کفن چوری کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کی بے حرمتی بھی کرتا ہے۔ ہمارے ملکی اداروں کی بھی یہ صورت حال ہے کہ یہاں ہر آنے والی حکومت اور ہر آنے والا دن لوگوں پر عذاب بن کر آتاہے۔

لوگ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ اس سے تو گزشتہ حکومت اور اس کے لوگ کسی حد تک اچھے تھے۔اس صورت حال کو ہم اپنے سرکاری ہسپتالوں میں دیکھتے ہیں یوں لگتا ہے کہ سرکاری ہسپتال چاہے بولان میڈیکل کالج ہو یا قدیمی ہسپتال سنڈیمن سول ہسپتال، یہ صرف ”غرباء“ کے لئے ہی رہ گئے ہیں جب سنڈیمن ہسپتال کوئٹہ کا اکلوتا سرکاری ہسپتال تھاتو اس میں صحت عامہ سے متعلق تمام سہولیات موجود تھیں، کیا قابل اور دبنگ ڈاکٹر ز تھے جن کے علاج سے لوگوں کو شفاء ملتی تھی ادویات وافر مقدر میں ملتی تھیں وارڈز بھی صاف ستھرے اور سٹاف بھی ڈیوٹی فل نظر آتے تھے۔

یہ منظر کشی میں اس لیے کررہا ہوں کہ سنڈیمن سول ہسپتال کو میں نے اس حالت میں خود دیکھا تھا،میں خود ان قابل اور نامور ڈاکٹروں کے پاس علاج معالجے کے سلسلے میں جاتا رہا ہوں اس لیے مجھے وہ منظر آج تک یاد ہے شعبہ ای این ٹی کی پہچان ڈاکٹر محمود رضا صاحب‘ ڈاکٹر صدیق اللہ‘ شعبہ سکن کے ڈاکٹر زیدی صاحب چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر عبدالغفار ناگی‘ ڈاکٹر عبدالمالک کاسی‘ شعبہ سرجری کے ڈاکٹر گلزار شعبہ کارڈیک کے ڈاکٹر ہاشم‘ میڈیسن کے ڈاکٹر محمد قاسم‘ گائنی کے ڈاکٹر شہناز نصیر سمیت دیگر کئی قابل اور نامی گرامی ڈاکٹر اپنے اپنے شعبوں کو کامیابی سے چلاتے ہوئے نظر آتے تھے۔

ان دو سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ شہر میں کوئی پرائیویٹ ہسپتال کا وجود تک نہ تھا لوگ پرائیویٹ ہسپتال کے نام سے نا آشنا تھے آج صورت حال اس کے برعکس ہے یہ دونوں سرکاری ہسپتال ہمارے اپنے صوبے کے“لوکل ڈاکٹروں کی سیاست اور نالائقیوں“ کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دئیے گئے ہیں کوئی ایک شعبہ صحیح کام نہیں کررہا ادویات نا پید ہیں،مریضوں کوادویات کی پرچی دے کر قریبی پرائیویٹ میڈیکل سٹورز کا راستہ بتا دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کوئٹہ شہر میں آبادی کے تناسب سے بڑھ کر ”پرائیویٹ ہسپتال“ جن کی تعداد یپنتیس سے چالیس کے قریب جا پہنچی ہے۔

وہ انہی سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کی بدولت کا میابی سے چل رہے ہیں،جبکہ دوسرکاری ہسپتال انہی لوکل سرکاری ڈاکٹروں کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہیں۔اب ہم اپنی مثال خود آپ سے دیکھ سکتے ہیں کہ ہم علاج معالجے کے لئے ان سرکاری ہسپتالوں کی بجائے ”پرائیویٹ ہسپتالوں“کا رخ کرکے بھاری فیس دے کر علاج کراتے ہیں،سرکاری ہسپتا لوں کا رخ کرنا ایک عرصہ سے ہم نے چھوڑ دیا ہے مجھ سمیت ہر صاحب حیثیت شخص پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرکے ان کی کامیابی میں چار چاند لگانے کا سبب بن رہے ہیں۔

ممتاز عالم دین طارق جمیل صاحب کی یہ بات مجھ سمیت ہر شخص کے دل کو لگتی ہے کہ اگر ڈاکٹر اور وکیل اپنے اپنے شعبہ کو کاروبار اور مریضوں اور ساہلوں کو”گاہک“ سمجھتے ہوں تو پھر اخلاقی گراوٹ کی اس سے بد تر مثال کیا دی جا سکتی ہے،اس پر تو ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن ہماری تباہی و بربادی کی نوید لے کر آتا ہے،حالات ہیں کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ سول ہسپتال کے شعبہ کارڈیک کی حالت زار دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ جہاں خواتین اور مرد مریضوں کو ایک ہی بڑے وارڈ میں رکھا جارہا ہے۔

حالانکہ سول ہسپتال میں ہر شعبہ کے مریضوں یعنی خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ وارڈز شروع دن سے بنائے گئے ہیں اب کارڈیک کے مریضوں کو ایک وارڈ میں رکھنے سے ان خواتین مریضوں سمیت ان کے ”اٹینڈنٹ“ کو پردے کے لحاظ سے انتہائی مشکلات کا سامناکرنا پڑرہا ہے شعبہ کارڈیک کے انتظامات کی بات کیا کریں اے سی جی وارڈ کے باہر ہے ڈاکٹروارڈ کے اندر جب معائنہ کرتا ہے تو اسے پرچی دے کر باہر کا راستہ بتایا جاتا ہے کہ یہ اے سی جی کروادیں، مطلب ایک چھت کے نیچے یہ انتظامات نہیں۔ ایک اور ٹیسٹ جسے Troponinٹیسٹ کہا جاتاہے۔

جس میں دل کی تکلیف میں مبتلا مریض کا خون لے کر ٹیسٹ کیا جاتا ہے یہ سہولت بھی اس وارڈ میں موجود نہیں حتیٰ کہ ہسپتال کی چار دیواری سے باہر یعنی جناح روڈ پر پرائیویٹ ٹیسٹ لیبارٹری کا راستہ بتا دیا جاتا ہے، ایسے میں دل کا مریض جو شدید تکلیف میں مبتلا ہو،اسے اس چھت کے نیچے ایمر جنسی کی بجائے جناح روڈ کا پتہ بتایا جاتا ہو تو سوچئیے کہ مریض اور اس کے ساتھ آنے والے اس کے خاندان کے افراد پر کیا گزرتی ہوگی، ایک معمولی مشین ٹیسٹ لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی یہ تما شا سالوں سے چلا آرہا ہے۔

ہمارے ارباب اختیار اس بارے میں سنجیدہ ہی نظر نہیں آتے انہیں صرف اور صرف سفارش اور ”چمک“ سے سروکار ہے سرکاری ہسپتال بھاڑ میں جائیں انہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔آج ہم کوئٹہ شہر میں دیکھ سکتے ہیں کہ پینتیس سے چالیس پرائیویٹ ہسپتال انہی لوکل سرکاری ڈاکٹروں کی شام کی پرائیویٹ پریکٹس کی بدولت کامیابی سے چل کر کروڑوں کما رہے ہیں جبکہ یہ دو سرکاری ہسپتال انہی لوکل ڈاکٹروں کے ہاتھ تباہ حال ہیں یہ ہسپتال علاج معالجہ کے لیے براہ نام رہ گئے ہیں قیمتی مشینری ان میں یا تو خود ناکارہ بنا دئیے جاتے ہیں۔

یا ٹینڈر میں ناکارہ مشینیں خریدی جاتی ہیں۔ سابق صوبائی وزیر صحت نصیب اللہ مری نے اس دور حکومت میں اسمبلی فلور پر اس بات کا انکشاف کیا کہ سابقہ ادوار میں صوبائی وزیر صحت صاحبان نے اس قدر ناکارہ اور غیر معروف کمپنیوں سے ادویات خریدی ہیں کہ اب ہمارے پاس ان کے رکھنے کی جگہ تک نہیں یہ قابل استعمال بھی نہیں ہیں۔ جب یہ صورت حال ہو تو ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیسے اچھے فیصلے آسکتے ہیں ہم اس کی مخلوق کو جسے وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے‘کو ڈاکٹروں کی شکل میں انتظامی آفیسر وں کی شکل میں یا وکیل کی شکل میں لوٹتے ہوں تو پھر کیا ہمارے گھروں میں خوشحالی آئے گی۔

ہرگز نہیں اس مخلوق کی آہ سے عرش بھی ہل جاتا ہے تو پھر فیصلے بھی اس طرح کے ہم پر نازل ہوتے ہیں،ہم انفرادی طورپر اپنی اصلاح کرنی چائیے جس کی اس قوم کو آج جس قدر ضرورت ہے اس سے قبل کبھی نہیں رہی ہے۔