|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2020

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کو دنیا نے سراہا ہے۔پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف تھا کہ افغان مسئلے کا حل سیاسی ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے ایک پیج پرہیں، ہم سب افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ پُرامن افغانستان خطے کے مفاد میں ہے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے کرنا ہے۔ افغان عوام جو فیصلہ کریں گے ہم حمایت کریں گے۔

واضح رہے کہ افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ انتہائی اہم دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔اس سے قبل افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین کی دفتر خارجہ آمد پر شاہ محمود قریشی نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم عمران خان،صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی،وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اوردیگراعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ان کے شیڈول میں شامل ہیں۔ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں خطاب بھی کریں گے۔ افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین 3 روزہ دورے پر پاکستان آئے ہیں۔

ان کے دورے میں افغان امن عمل کے تناظر میں بات ہوگی اور دو طرفہ تعلقات اور عوامی سطح پر روابط مستحکم بنانے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔عبداللہ عبداللہ کے ہمراہ اسلام آباد آنے والے وفد میں افغان مفاہمتی کونسل کے اہم ارکان بھی شامل ہیں۔اس وقت افغان امن عمل پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں چونکہ یہ انتہائی اہم عالمی اورخطے کا مسئلہ ہے جو دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ سرد جنگ سے لیکر نائن الیون کے بعد اب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔

جس کی سب سے بڑی وجہ طاقت کا استعمال ہے مگر دوحہ میں ہونے والے کامیاب مذاکرات اور ملابرادران کی جانب سے افغانستان میں انٹرابات چیت سے کافی امیدیں وابستہ ہیں جو افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مستقل امن کے قیام اور نظام کے حوالے سے گفت وشنید ہوگی یقینا یہ ایک بڑا ہدف ہے کہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے کامیابی کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھانا ہے تاکہ افغانستان جو کئی دہائیوں سے ایک بڑی پراکسی کی وجہ سے متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔

اسے اب ختم کرنے کا وقت آچکا ہے جس کیلئے پاکستان اول روز سے کوششیں کررہا ہے کہ کسی طرح سے باہمی اتفاق واتحاد کے ساتھ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور پائیدار امن کیلئے یکجا ہوجائیں جس کیلئے پاکستان نے پہلے بھی ثالثی کاکردار ادا کیا تھا اور اب بھی اس میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام اور جنگی ماحول کی وجہ سے پاکستان براہ راست متاثر ہوا ہے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔

اور اس کے ساتھ جنگ زدہ افغان باشندوں کو پاکستان میں پناہ بھی دی گئی، اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو یقینا دہشت گردی کا نہ صرف خطے سے خاتمہ ہوگا بلکہ مہاجرین جو کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں وہ بھی اپنے وطن واپس جائینگے کیونکہ مستحکم اور خوشحال افغانستان ہی سب کے مفاد میں ہے۔

اس لئے ایک بار پھر عالمی طاقتوں کو مذاکرات کے حوالے سے مکمل طور پر ملابرادران کے ساتھ تعاون اور اس حوالے سے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چائیے تاکہ افغانستان کا دیرپا مسئلہ حل ہوسکے۔ا مید ہے کہ اس کامیابی کے بعد خطے میں سیاسی ومعاشی صورتحال میں بڑی تبدیلی رونما ہوگی جس سے سب کے مفادات کو تحفظ ملے گا۔