|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2020

کوئٹہ: گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے کہا ہے کہ معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال انتہائی تشویش ناک ہے جو نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے مستقبل کو داو پر لگا رہا ہے۔گورنر یاسین زئی نے کہا کہ منشیات کی لعنت پر قابو پانے کیلئے جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں منشیات کی طلب، اس کی رسد اور انسداد منشیات کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینے پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز گورنرہاوس کوئٹہ میں وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات اعظم خان سواتی سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر گورنر بلوچستان نے وفاقی وزارت انسدادِ منشیات کی پالیسی پر موثر اور نتیجہ خیز عملدرآمد کیلئے صوبوں اور خاص طور سے تعلیمی اداروں کا تعاون خصوصی اہمیت کا حامل ہے. انہوں نے کہا کہ منشیات کا خاتمہ ایک قومی ٹاسک ہے اور اس کیلئے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات اعظم خان سواتی نے کہا کہ معاشرے میں اساتذہ کا باعزت مقام ہے اور وہ منشیات کے خاتمہ کرنے میں مدد و رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں. انسان کی حرمت وعظمت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے. وفاقی وزیر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ ہر ذی شعور اور ذی فہیم شخص کا انسانی فریضہ بنتا ہیکہ وہ انسدادِ منشیات کیلئے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھرپور عوامی شعور و آگاہی مہم چلانے سے منشیات کے استعمال میں زیادہ کمی لائی جا سکتی ہے. وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات نے کہا کہ مشترکہ کاوشوں سے ہی ہم منشیات کی لعنت سے اپنی آنے والی نسلوں کو بچا سکتے ہیں.ملاقات میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، سینیٹر احمد خان خلجی، سینیٹر کودا بابر، وزیر اعلیٰ بلوچستان کی مشیر برائے صحت ڈاکٹر ربابہ، وفاقی سیکرٹری برائے انسدادِ منشیات شعیب دستگی۔

وائس چانسلر بیوٹمز انجنئیر فاروق بازئی، بولان میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نقیب اللہ اچکزئی، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ساجدہ نورین، صوبائی سیکرٹری تعلیم شیرخان بازئی، سیکرٹری صحت دوستین جمالدینی، ایڈیشنل سیکرٹری حمیداللہ خان ناصر، پرووائس چانسلر سعود تاج اور اے این ایف کے نمائندے بھی موجود ہیں۔