|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2020

بلوچستان میں بنیادی سہولیات کا فقدان ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔عوامی مشکلات میں سرفہرست لوکل بسیں ہیں جو شہر میں چلتی ہیں۔ان بسوں کا جائزہ لیاجائے تو یہ انتہائی خستہ حالت میں ہیں ان کی سیٹیں اور ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ من مانی کرایہ بھی وصول کیاجاتا ہے شہریوں کے ساتھ بس کنڈیکٹر کا رویہ بھی درست نہیں ہوتا اس لئے ہر وقت شہری سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں کہ غلط رویوں کے باعث عام شہری لوکل بسوں پر سفرکرنے سے گریز کرتے ہیں۔ خاص کر کوئٹہ کی بات کی جائے تو طلباء، خواتین، بزرگوں کیلئے ان بسوں میں سفر کرنا اجیرن بن چکا ہے۔

جبکہ لوکل بس کے اسٹاپ تک بھی، شہر کے کسی ایسے مقام پر موجود نہیں کہ جس سے شہریوں کے لیے آسانی پیدا ہو، بس کے اندر سیٹیں بھر جانے کے باوجود گنجائش سے زیادہ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں اور عوام کو بھیڑ بکریوں کی ان میں ٹھونس دیا جاتا ہے، شہری ان سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اس لئے ان کی جانب سے یہ صدائیں بلند کی جاتی ہیں کہ خدارا حکومت کی جانب سے انہیں بہترین ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ لوگ آسانی سے اپنی منزل کی جانب سفر کرسکیں اور انہیں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرناپڑے۔مگر اب جب سے حکومت کی جانب سے گرین بس منصوبے کو کوئٹہ شہر میں شروع کرنے کی باتیں سامنے آرہیں۔

تو لوکل بس مالکان بجائے اپنی کوتاہیوں پر توجہ دینے کے، احتجاج کی دھمکی دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز متحدہ لوکل بس ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا کہناتھاکہ حکومت بلوچستان کی جانب سے گرین بس منصوبہ شروع کرنا لوکل بس مالکان کے معاشی قتل کے مترادف ہے،متنبہ کرتے ہیں کہ ٹرانسپورٹرز سے متعلق کوئی بھی منصوبہ انہیں قابل قبول نہیں۔اگر لوکل بس مالکان کو درپیش مشکلات اور ان کے مطالبات کو حل نہ کیا گیا تو 25نومبر سے لوکل بسیں بطور احتجاج کھڑی کردی جائیں گی۔ باقی صوبوں میں گرین بس منصوبے ناکام ہونے کے باوجود صوبائی حکومت اسے کوئٹہ شہر میں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

جو کہ کوئٹہ میں ایک عرصے سے چلنے والی لوکل بس مالکان کے معاشی قتل کے مترادف ہے جسے وہ کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے مشرقی و مغربی بائی پاس اور سریاب روڈ کو دوریہ کرنے سمیت دیگر مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر میں اس وقت ساڑھے 6سو بسیں روزانہ لباء و طالبات، سرکاری ملازمین و دیگر مزدور پیشہ افراد کو شہر لانے اور گھروں تک لے جاتی ہیں مگر اس کے باوجود بھی گرین بس کے نام سے منصوبہ شروع کیا جارہا ہے۔بہرحال حکومت کو اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ عوام کی مشکلات اور بہترین سفری سہولیات فراہم کرنے کیلئے گرین بس سروس کا آغاز کردینا چاہئے۔

تاکہ عوام کا یہ مسئلہ تو حل ہوجائے اور لوکل بس مالکان اپنے بسوں کو بہتر بنانے پر توجہ دیں،دھواں چھوڑنے والی بسوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ بسوں میں عوام کیلئے کوئی ایسی سہولت موجود نہیں کہ جس پر لوکل بس مالکان کو داد دی جاسکے،بلکہ آئے روز ان کی مان مانیاں اور شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک بڑھتاجارہا ہے اور لوکل بس مالکان نے کبھی بھی اپنی کوتاہیوں کو درست کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جس پر کہاجائے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔اور جہاں تک دیگر صوبوں میں گرین بس سروس منصوبوں کا جو شکوہ لوکل بس مالکان کررہے ہیں۔

وہ غلط فہمی کا شکار ہیں،آج پنجاب کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہاں کے عوام بہترین سفری سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں لہٰذا حکومت کسی دھمکی پر کان نہ دھرے بلکہ گرین بس منصوبہ کو جلد شروع کرے تاکہ عوام کی کم ازکم سفری سہولیات کے حوالے سے جو شکایات ہیں ان کا ازالہ ہوسکے۔