|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2020

کوئٹہ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیندک لیز معاہدے کو آئین کے برخلاف قراردیتے ہوئے کہاہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت معاہدہ صوبے کے دائرہ اختیار میں آتاہے،بدقسمتی سے سونا اور چاندی اگلنے والے علاقے کی عوام آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ایسا نہیں لگتا کہ مذکورہ علاقے میں اربوں روپے کا پروجیکٹ چل رہاہو۔ اگر سونے اور چاندی کے پروجیکٹس نقصان میں ہیں۔

تو انہیں بند کردیناچاہیے، غیرملکی کمپنی کے ساتھ معاہدے خط وکتابت کی رپورٹ دو ماہ میں پی اے سی کو پیش کی جائے بلکہ اس بابت کمپنی حکام پی اے سی کو بریفنگ دیں کہ سیندک منصوبے سے سالانہ کتنی معدنیات نکل رہی ہے،پی اے سی اجلاس میں چیئرمین اور ممبران کے ریمارکس عوام کے پیسوں کی دفاع کیلئے ہوتی ہیں نا کہ کسی کے ساتھ کوئی ذاتی رنجش ہو یاانہیں ہم انتقام کانشانہ بنائیں، مائنز سے رائلٹی تووصول کی جاتی ہے۔

لیکن وہاں حادثات کے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کیلئے ایمبولینس تک دستیاب نہیں ہوتا جبکہ محکمہ معدنیات اور آڈیٹر جنرل کے دفاتر کا فاصلہ اتنا نہیں کہ ریکارڈ کو وہاں پہنچتے ہوئے ڈھائی سال لگ جائیں،ڈیفالٹر کو راہداری دی جاتی ہے لیکن بقایات جات بھی وصول نہیں کئے جاتے۔ان خیالات کااظہار پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اخترحسین لانگو اور کمیٹی ممبران نے محکمہ معدنیا ت ومعدنی وسائل کے حکام کے ساتھ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر کمیٹی کے ممبران ملک نصیر احمد شاہوانی،نصراللہ زیرے،حاجی نواز کاکڑ، اسمبلی سیکرٹری طاہر شاہ کاکڑ، ڈپٹی سیکرٹری سراج الدین لہڑی،چیف اکاؤنٹ آفیسر سید محمد ادریس،ایڈیشنل سیکرٹری قانون نور حسین بلوچ،ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ حبیب الرحمن جاموٹ،پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے جوائنٹ چیف اکانومسٹ شفیق الرحمن،سیکرٹری مائنزاینڈ منرلز،سید ظفر علی بخاری،ڈی جی مائنز عبداللہ شاہوانی،ڈائریکٹرجنرل آڈٹ غلام سرور مندوخیل ودیگر بھی موجود تھے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اخترحسین لانگو نے کہا کہ 60فیصد پیراز ہمارے ریکارڈ کی عدم فراہمی کے ہوتے ہیں۔

انھوں نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے فیلڈ آڈیٹرکو ریکارڈ نہیں دی ہے مذکورہ سیکرٹریز ان تمام کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے بیڈا ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائیں اورپبلک اکاونٹس کمیٹی کو دو ماہ میں رپورٹ جمع کروائیں،محکمہ معدنیات اور آڈیٹر جنرل کے دفاتر کا فاصلہ اتنا نہیں کہ ریکارڈ کو وہاں پہنچتے ہوئے ڈھائی سال لگ جائیں،محکمہ معدنیات نے اسٹیپنڈ کی مد میں جو پیسے دئیے ہیں۔

انکا ریکارڈ محکمہ کے پاس ہے ہی نہیں۔ انہوں نے کہاکہ کوئٹہ کے ساتھ ہی موجود مائنز میں جو حادثات ہوتے ہیں مائنز سے رائلٹی تو کٹتی ہے لیکن مزدوروں کو ہسپتال تک پہنچانے کیلئے ایمبولینس تک نہیں بلکہ علاقے کے اسکولوں، ہسپتالوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ محکمہ معدنیات اگر کچھ نہیں کرسکتا تو مائنز کے اندر کام کرنے والوں کے لئے ایک ایمبولینس ہی مہیا کرے۔

ممبر کمیٹی ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ حالیہ ڈیگاری حادثے میں جب مزدور جاں بحق ہو گئے تھے تو ان کو نکالنے کیلئے دوسرے مزدور انہیں ریسکیو کرنے کیلئے گئے لیکن وہ بھی جانبر نہیں ہوسکے ہیں محکمہ ذمہ داری ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے حادثات کی ر وک تھام کیلئے کردار ادا کرے،جب تک ریکارڈ نہیں دینگے اس وقت تک آڈٹ کی جانچ پڑتال بھی نہیں ہوسکے گاڈیفالٹرز کو محکمے نے راہداری دی اور ان سے بقایاجات بھی وصول نہیں کئے۔

دو سال میں ان سے پیسے اب تک کیوں وصول نہیں کئے گئے۔ کمیٹی ممبران نے کمپلائنس رپورٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیندک لیز معاہدہ آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اگر کاپر اور سونے کے پراجیکٹس نقصان میں ہوتے ہیں تو ہمیں انہیں بند کرنا چاہئیے۔ ان جگہوں کو سیکیورٹی بھی ہم دے رہے ہیں۔ 6 سے 7 ارب تک ان کمپنیوں کے سیکیورٹی پر خرچ ہورہے ہیں۔پی اے سی نے مئی 2018 میں ہدایات دی تھی کہ سیندک معاہدے کووفاقی حکومت کے ساتھ اٹھایاجائے۔

چیئرمین کمیٹی نے محکمہ معدنیا ت کے حکام کو ہدایت کی کہ مذکورہ ہدایات پر سیندک کے منصوبے پر وفاقی حکومت کے ساتھ دو سال کے دوران جو خط و کتابت ہوئی ہے اس سے متعلق رپورٹ 2 ماہ کے اندر اندر پبلک اکاونٹس کمیٹی کو پیش کیاجائے،کمیٹی ممبران نے کہاکہ محکمہ معدنیات کی جانب سے پی اے سی کے سابقہ ہدایات پر اب تک عملدرآمد نہیں کیاہے۔

اگر پی اے سی احکامات پر عمل نہ ہوا تو صوبے کے سب سے بڑے عوامی احتساب کے فورم کااستحقاق مجروح ہوگا،18ویں ترمیم کے بعد غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ صوبے کے دائرہ اختیار میں ہے،وفاقی حکومت کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کس قانون کے تحت ہورہاہے انہوں نے دریافت کیاکہ سیندک منصوبے سے سالانہ کتنی معدنیات نکل رہی ہے اس سلسلے میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے۔