|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2021

کراچی: حکومت کا ایک اور یوٹرن سامنے آ گیا وفاقی حکومت کو گریڈ22 سے ریٹائرڈ افسرساڑھے تین ماہ میں بھی نہ مل سکا مسلح افواج میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ تمام تر لیفٹیننٹ جنرل نے بھی بلوچستان اور سندھ کے جزیروں پر قابض ہونے کے لیے صدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کی گئی پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ملازمت سے متعلق عدم دلچسپی کا اظہار کر دیاسندھ سرکار،علیحدگی پسند تنظیموں اور حکومتی اتحادیوں کا احتجاج رنگ لے آ یا۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے ناراض اتحادیوں کی تلخی دور کرنے کے لیے گذشتہ سال2 ستمبر 2020 کوصدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کی گئی اتھارٹی سے متعلق آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کی بنیادی وجہ حکومتی اتحادیوں کی بڑھتی مخالفتیں بتائی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ساڑھے تین ماہ قبل اتھارٹی کے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے امیدواروں سے مختلف شرائط پر مبنی درخواستیں طلب کی گئیں تھیں۔

جس کے کئی ماہ گزر جانے کے باجود بھی کسی قسم کی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ ذرائع نے دعوی کیا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کی حکومت سے علیحدگی کی بنیادی وجہ بلوچستان کے جزیروں پر قابض ہونے اور اتھارٹی قائم کرنے کی بتائی جاتی ہے جبکہ سندھ کے جزیروں پر قابض ہونے سے متعلق حکومتی اقدام پرگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے تحفظات بھی تاحال دور نہیں ہو سکے ہیں۔

حالیہ دنوں جی ڈی اے کی حکومت سے دوریاں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں جس کا اظہار سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم گذشتہ روز حکومت پر تنقیدی تیر برسانے کی صورت میں کر چکے ہیں۔ان تمام تر امور کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے حکومت نے سندھ اور بلوچستان کے جزیروں پر قابض ہونے سے متعلق قائم کردہ اتھارٹی سے متعلق صدارتی آرڈیننس واپس لینے پر مشاورت کا آغاز کر دیا ہیجس سے متعلق چند روز میں اہم اعلانات متوقع ہیں. واضح رہے ساڑھے تین ماہ قبل حکومت کی جانب سے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے کراچی میں مطلوبہ اتھارٹی کا ہیڈکواٹر قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا جسے حتمی شکل تاحال نہیں دی جا سکی ہے.صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا۔صدارتی آرڈیننس کے مطابق ‘ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976’ کے زیر انتظام ساحلی علاقے وفاق کی ملکیت ہوں گے۔

اور سندھ کے بنڈال اور بڈو سمیت تمام جزائر کی مالک وفاقی حکومت ہوگی۔آرڈیننس کے مطابق اتھارٹی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا قبضہ حاصل کرنے کی مجاز ہوگی اور آرڈیننس کے تحت اٹھائے گئے اقدام یا اتھارٹی کے فعل کی قانونی حیثیت پر کوئی عدالت یا ادارہ سوال نہیں کرسکے گا۔آرڈیننس کے متن میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی غیر منقولہ جائیداد پر تمام لیویز، ٹیکس، ڈیوٹیاں، فیس اور ٹرانسفر چارجز لینے کی مجاز ہوگی۔

جبکہ گریڈ 22 کا سرکاری ریٹائرڈ افسر یا آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کے مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر ہی اتھارٹی کا چیئرمین تعینات ہوسکے گا . چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال ہوگی جس میں ایک بار توسیع ہو سکے گی۔

آئندہ آنے والے دنوں میں صدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کردہ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو کالعدم قرار دیے جانے کے باعث سندھ اور بلوچستان کے جزیروں پر شہر بسانے کے منصوبے کے زمین بوس ہونے کے امکانات روشن ہیں.واضح رہے سندھ کے جزائر پر قبضے سے متعلق درخواست سندھ ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔