|

وقتِ اشاعت :   November 21 – 2021

گزشتہ تین سے چار سالوں کے دوران ملکی سیاست میں سب سے بڑی بحث اداروں کی سیاسی مداخلت پر رہی ہے اور یہ باتیں خود سیاسی جماعتیں ہی کرتی آرہی ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی ، فیصلوں پر اثرانداز ہونے کا معاملہ ہو یا پھر خبروں اور تجزیوں میں ہر ادارے کو ہدف بناکر یہی کہا گیا کہ مخصوص ایجنڈے پر اور ڈکٹیشن کے ذریعے یہ سب کچھ ہورہاہے۔ بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتوں نے ہر وقت اپنے من پسند اورتعریف کے عمل کو ہی پسند کیا ہے چاہے حکومت ہو یا اپوزیشن اداروں کو نشانہ بناتے آئے ہیں یہی المیہ ہے کہ آج پارلیمان اس طرح مضبوط نہیں جس طرح سے ہونا چاہئے تھا ۔حکومتوں نے اپنے من پسند بلز کے ذریعے اپنے مفادات اور خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنایا تاکہ ان کے لیے مستقبل میں بھی حکومتی ایوانوں تک رسائی کے راستے صاف ہوں ۔

ادارے اپنا کام اس وقت بہتر انداز میں کرسکتی ہیں جب پارلیمان اسی معیار کے مطابق چلے جو ملک کا سب سے بڑا ادارہ اور مقدس ایوان ہے جہاں قانون سازی ملکی وعوام کے وسیع تر مفادات میں ہوتے ہیں مگر ایسا ستر سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود نہیں ہوا یہاں تک کے دیگر اداروں کے اندر من پسند شخصیات کو میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بٹھایاگیا نتیجہ سب کے سامنے ہے مگر سبق کبھی نہیں سیکھا گیاکہ آج جو کچھ بویا جارہا ہے وہی آنے والے وقت میں سامنے آئے گا۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمدنے لاہور میں کانفرنس کے دوران کہا کہ نہ سپریم کورٹ کو کسی نے ڈکٹیٹ کیا نہ کبھی کسی سے ڈکٹیشن لی۔ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ عدلیہ اداروں کے دبائو میں کام کر رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا عہدہ چھوڑدیں گے، کسی بھی غیر جمہوری سیٹ اپ کوقبو ل نہیں کریں گے۔ کسی ادارے کی بات سنی نہ کسی کے دباؤمیں آئے۔ کسی کو کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ عدالتیں اداروں کے دبائو میں کام کررہی ہیں۔بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ صاف واضح بات کرناپسند کرتاہوں۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے انسانوں کی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک حلف کے پابند ہیں، فیصلے انصاف اورضمیر کے مطابق کیے۔عدالت جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے کرتی ہے کسی اورکی مرضی سے کچھ نہیں کرتی۔قانون کے مطابق فیصلے کرنا میرے اوردیگرججز کاکام ہے۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے مزید کہا کہ مجھ کوکوئی گائیڈنہیں کرتاکہ اپنافیصلہ کیسے کروں؟کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی،ججزانصاف کی سربلندی کیلئے محنت سے کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قانون کی عمل دار ی پر یقین رکھتے ہیں۔ عدلیہ کا کام انصاف کی فراہمی ہے۔عدلیہ قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے واضح طور پر یہ بات سامنے رکھ دی ہے اسی طرح میڈیانے بھی ہر وقت کوشش یہی کی کہ سچ اور حقائق پر مبنی خبریں اورتجزیوں کے ذریعے معلومات وآگاہی فراہم کی جائے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام اور گورننس بہتر طریقے سے آگے بڑھے مگر قدغن لگانے کے مختلف حربے استعمال کئے گئے اور اس بات کی وضاحتیں بھی دی گئیں کہ غیرجانبداری سے فرائض سرانجام دیئے جارہے ہیں گوکہ تمام میڈیا ہاؤس کی بھی یہاں بات نہیں ہورہی، چند میڈیاہاؤسز نے اپنے مالی مفادات کے ذریعے میڈیا کو ایک الگ ڈگر پرلے جانے کی کوشش کی اور اس میں بھی کرداروں کا ہاتھ ہے مگر اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہئے کہ ہر کسی کو وضاحتیں دینی پڑیں بلکہ سب کو مشترکہ طور پر ملک کے اندر سیاسی استحکام اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا چائیے وگرنہ آگے چل کر مزید ملک دیگر مسائل اور بحرانات کا سامنا کرے گا جس کامتحمل موجودہ حالات میں ملک نہیں ہوسکتا۔