|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2022

پاکستان میں گزشتہ چند ماہ سے آڈیو اورویڈیو لیکس کی جنگ اپوزیشن اورحکومت کے درمیان جاری ہے ایک ایسا سیاسی خطرناک کھیل کھیلاجارہا ہے جس کے مستقبل میں انتہائی بھیانک نتائج سیاسی حوالے سے برآمد ہونگے۔ جس جنگ کو سیاسی میدان میںلڑنا چاہئے اب خفیہ آڈیو اورویڈیوز کے ذریعے ایک دوسرے کو زیرکرنے کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے جو سیاسی اقداراوراخلاق کے مکمل منافی ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کا کام یہ نہیں ہے کہ ایک دوسرے کی مخبری پر لگ جائیں اور ملک کے اہم مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ذاتی وگروہی مفادات کے پیچھے لگ جائیں۔

کیونکہ ان آڈیوز اور ویڈیوز کا مقصد اپنی سیاسی برتری اوراپنے مخالفین کا بدترین شکل سامنے لانا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب سیاسی محاسبہ مخبریوں کے ذریعے ایجنڈابن چکا ہے بہرحال یہ ایک ایسی آگ ہے جس سے دونوں فریقین نہیں بچ پائینگے کیونکہ ایک کے بعدایک خفیہ آڈیو اورویڈیومنظرعام پر آگئی ہے ملکی سیاست اسی کے گرد گھومتی رہے گی اوراہم معاملات اوجھل ہوجائینگے۔گزشتہ روزمسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کی آڈیو نے ایک بارپھرتہلکہ مچادیا ہے۔ مریم نوازاورپرویز رشید ایک میڈیاہاؤس اوراس کے پروگرام کے متعلق گفتگوکررہے تھے دونوں رہنماؤں نے پروگرام میں شامل صحافیوں کے تجزیہ پر اعتراضات اٹھائے اورساتھ ہی غیر اخلاقی الفاظ کا بھی استعمال ہواجوکہ قابل مذمت عمل ہے ایسے ا لفاظ کا چناؤنہیں کرنا چاہئے اور صحافیوں کو زیرعتاب لانے کی پالیسی کو ترک کردینا چاہئے۔

اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ بعض صحافتی حلقے جانبدار رہ کر ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کے ترجمان کے طور پر کام کرتے ہیں مگر باشعور افراد ان سے بخوبی واقف ہیں کہ کون کس کی طرف ہے۔ سیاسی جماعتیں اگر ملک میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی کا بار باردعویٰ کرتی ہیں تو میڈیا کو اپنا ترجمان کیونکر بنانا چاہتی ہیں، اسے زیر کرنے یا ان کے خلاف گھیرا تنگ کرکے اپنے نظریہ کے پرچار کے لیے استعمال کیوںکرنا چاہتی ہیں، کیا یہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ عمل نہیں ہے ؟کیااس سے جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر فرق نہیں پڑے گا خداراسیاسی جماعتیں اپنی جنگ سیاسی اقدار اوراخلاقیات کے مطابق لڑیں اس طرح کے عمل سے پورامعاشرہ متاثر ہوگا۔آج عوام اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے حکومت اوراپوزیشن کی طرف دیکھ رہی ہے مگر سیاسی جماعتیں اقتدار تک رسائی اور اپنے مفادات کی تکمیل کے پیچھے لگ چکے ہیں، اس سے ملک کا کسی صورت بھلا نہیںہوگااور نہ ہی عوام کو اس کا فائدہ پہنچے گا ۔

ماضی کو مدِ نظررکھتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کس طرح سے جمہوری نظام کو لپیٹ کر شخصی آمرانہ نظام لاگو کرتے ہوئے پورے ملک کے نظام کو حشر نشرکیاگیا،اگر سیاسی جماعتوں کا بھی یہی مقصد ہے توآمریت اور جمہوریت میں فرق ملک کے اندرسے ختم ہوجائے گااورووٹ کے تقدس کی بات کرنے کے سیاسی جماعتوں کے دعوؤں کو عوام گروہی وذاتی مفاد ہی سمجھے گی۔ اس لیے وقت اب بھی ہے کہ سیاسی جنگ کو سیاسی انداز میں لڑاجائے جس میںغیر اخلاقی عمل کا عنصر نہیں ہونا چاہئے جو ملک کے مستقبل کے لیے بھیانک ثابت ہو۔