|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2022

ملک میں سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے بھی حالیہ بارشوں اورسیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس سمیت امداد دی جارہی ہے مگر افسوس ہمارے یہاں سیاست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔اپوزیشن کی جانب سے دھڑادھڑ جلسے جلوس کئے جارہے ہیںجہاں اپوزیشن کی حکومت ہے وہاں ریلیف پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے جلسے کرکے اگلی باری کی بات کی جارہی ہے، آخری میچ کا ذکر کیاجارہا ہے کبھی عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ چار نام میرے پاس ہیں اگر کچھ ہوا تو انہیں سامنے لاؤنگا، مجھے دیوار سے لگایا جارہا ہے، مقدمے بنائے جارہے ہیں میں زیادہ خطرناک ہوتا جارہاہوں ۔بہرحال اگر عمران خان کی جان کو خطرہ ہے چار نام ہیں تو متعلقہ اداروں کو آگاہ کردیں مگر بیرونی مبینہ خط کی طرح یہ نام بھی ہوا میں تیر چلانے جیسے لگ رہے ہیں۔ اگر واقعی معاملہ سنجیدہ ہے تو کیونکر ناموں کو خفیہ رکھ کر ایک انتشار کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ خدارا سیاست سے اس وقت توگریز کیاجائے اور حکومت بھی مقدمات پر زیادہ زور دینے کی بجائے سیلاب متاثرین کی امداد اور ان کی بحالی پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرے، نہیں تو مسائل مزید بڑھیں گے ۔تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ملک میں انسانی بحران پیدا ہو ا ہے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے لوگوں کا سب کچھ تباہ ہوکر رہ گیا ہے مگر سیاستدان یکجاہوکر کام کرنے کو تیار نہیں ،تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کیونکہ جب اس طرح کے حالات بنتے ہیں تو ریکارڈ کا حصہ بنتے ہیں جس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ دوسری جانب چیئرمین این ایف آر سی سی احسن اقبال نے کہا ہے کہ جنوبی علاقوں میں 30 سال کی اوسط میں 500 گنا سے زیادہ بارشیں ہوئیں اور کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر ہوئی جس کی وجہ سے سیلاب نے تباہی مچا دی۔چیئرمین این ایف آر سی سی احسن اقبال نے سیلاب سے متعلق پریس بریفنگ میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

14 جون سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور زیادہ دنوں تک چلتا رہا۔ بارشوں اور سیلاب کے باعث بدقسمتی سے بڑی تباہی ہوئی۔ بارشوں اور سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔دیگر ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں کترینا طوفان آیا تو سپر پاور ملک بے بس ہو گیا تھا اسی طرح جاپان میں بھی جب طوفانی سیلاب آیا تو وہ بے بس ہوگیا۔ قدرتی آفات سے مرکزی، صوبائی یا ادارے تنہا نہیں نمٹ سکتے بلکہ قوم نے مل کر نمٹنا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بارشوں اور سیلاب سے سندھ اور بلوچستان بہت متاثر ہوا جبکہ پنجاب، خیبرپختونخوا کے بعض علاقے بھی سیلاب سے متاثر ہوئے۔ بارشوں اور سیلاب سے رابطہ سڑکیں تباہ ہوئیں۔احسن اقبال نے کہا کہ شمالی علاقوں میں کم اور جنوبی علاقوں میں سب سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ جنوبی علاقوں میں 30 سال کی اوسط میں 500 گنا سے زیادہ بارشیں ہوئیں اور کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر ہوئی۔ پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکوں کا بڑا حصہ متاثر ہوا۔ پنجاب کے ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے تباہی ہوئی، آبادی، فصلیں اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچا۔ 81 گرڈ اسٹیشنز میں 69 کو بحال کر دیا گیا ہے جبکہ 12 پر کام جاری ہے اور یہ بھی جلد بحال ہوجائیں گے۔

123 فیڈرز پر کام جاری ہے اور چند دنوں میں ان سے بھی بجلی کی ترسیل شروع ہوجائے گی۔ متاثرہ 881 فیڈرز میں سے 758 فیڈرز کو بحال کیا گیا۔چیئرمین این ایف آر سی سی نے کہا کہ مواصلاتی نظام متاثر ہونے کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کو نقصان پہنچا جبکہ جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں زیادہ تر آبادی متاثر ہوئی۔ اسی طرح بارشوں اور سیلاب سے 10 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا، ہائی ویز انجینئرز اور دیگر اداروں نے 11 شاہراہیں بحال کر دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ میں ابھی بھی سیلابی صورتحال برقرار ہے اور پانی کے نکاس میں سست روی ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے پنجاب میں 54 اموات ہوئیں اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔چیئرمین این ڈی ایم اے اختر نواز نے کہا کہ رواں سال غیر معمولی بارشیں ہوئیں اور قدرتی آفت کی وجہ سے تلخ ترین صورتحال سے دوچار ہوئے۔ بارشیں سندھ، بلوچستان اور پنجاب پر زیادہ اثر انداز ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ رواں سال ہمیں 4 ہیٹ ویوز کا سامنا رہا اور ہیٹ ویوز کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات ہوئے۔

رواں سال 190 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔بہرحال تباہ کاریاں تو ہوئی ہیں اور ریکارڈ پر موجود ہیں مگر اب اس حوالے سے سیاست پر توجہ دینے کی بجائے بحران کے حل پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب پوری سیاسی قیادت ایک پیج پر ہوگی امید ہے کہ سیاست کو فی الوقت ختم کرکے متاثرین کی مدد کے لیے سب اپنا کردار ادا کرینگے کیونکہ یہی وہ عوام ہیں جو ووٹ دیکر اپنے نمائندگان کو ایوان تک پہنچاتے ہیں اگر ان کی داد رسی نہیں کی جائے گی تو اس کا اثر پر بھی ضرور پڑے گاسیاسی حوالے سے کوئی کتنا بھی معروف ہو عوام کارکردگی کی بنیاد پر اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچاتے ہیں اگر وہ بدظن ہوجائیں تو دھڑام سے زمین پر گرابھی دیتے ہیں اس لیے مسئلے کی نوعیت کو بھانپتے ہوئے سیاست کی جائے جو مستقبل میں آپ کے لیے مثبت ثابت ہو اور عوام کے سامنے سراٹھانے کی ہمت ہوسکے۔