|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2022

کوئٹہ میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے منشیات فروشی کے ذریعے رقم جمع کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

کوئٹہ میں جمعہ 7 ستمبر کو علی الصبح پولیس اور محکمہ انسداد دہشتگردی نے شہر میں واقع سٹی نالے میں کئی دنوں کی ریکی کے بعد کارروائی کی۔

پولیس کے نالے میں اترتے ہی منشیات فروشوں نے فائرنگ شروع کردی جس پر پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی، کچھ دیر کی مدبھیڑ کے بعد پولیس نے نالے کا کنٹرول حاصل کرلیا۔

 

پولیس مقابلے میں منشیات کا دھندہ کرنے والے 8 ملزمان ہلاک اور 2 زخمی ہوئے اور ان سمیت سات ملزمان گرفتار کرلئے گئے۔

مرنے والوں کی لاشیں سول ہسپتال منتقل کی گئیں جہاں ایک کی شناخت ان کے سرغنہ آصف عرف صفو کے نام سے ہوئی۔

ڈی آئی جی کوئٹہ غلام اظفر مہیسر نے بتایا کہ آصف پولیس کو منشیات فروشی کے ساتھ قتل، اقدام قتل، پولیس پر فائرنگ سمیت کم از کم 9 مقدمات میں کئی برس سے مطلوب تھا۔

مارے جانے والے باقی افراد بھی چوری، ڈکیتی اور منشیات فروشی کے متعدد مقدمات میں مطلوب تھے۔

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزازاحمد گورائیہ نے یہ بتائی ہے کہ نالہ کے اندر منشیات فروشی کا دھندہ ’’ٹیرر فنانسنگ“ کے لیے ہورہا ہے۔

انہوں نے کالعدم بی ایل اے ، داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا ذکر کیا لیکن اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ سٹی نالہ کے اندر منشیات کے کاروبار سے ان گروپس کا کس طرح کا تعلق تھا۔

اطلاعات کے مطابق کالعدم تنظیموں کے اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں میں ملوث ہونے کی رپورٹس موجود ہیں، مصدقہ طور پر کالعدم بی ایل اے کوئلے کی کانوں سے جبری ٹیکس لیتی ہے جہاں سے یہ تنظیم ماہانہ خطیر رقم جمع کرتی ہے۔

تاہم یہ بات پہلی بار سامنے آئی ہے کہ کالعدم گروپس سٹی نالہ کے اندر منشیات فروشی سے مالی ضروریات پوری کرتے ہیں چناںچہ سٹی نالہ آپریشن کا یہ پہلو تشویشناک ہے۔

کوئٹہ شہر کا یہ نالہ حبیب نالے کے نام سے موسوم ہے جو انگریز دور میں کوئٹہ شہر کی تعمیر و تشکیل کے بعد بارانی و سیلابی پانی کی نکاسی کی غرض سے تعمیر کیا گیا تھا۔

اب یہ نالہ کچرے سے لبالب بھرا ہوا ہے جس کی باقاعدہ اور متواتر صفائی میٹروپولیٹن کارپوریشن فراموش کرچکی ہے چناںچہ نالے کا کئی سو میٹر حصہ پچھلی چند دہائیوں سے منشیات کے عادی افراد اور منشیات فروشوں کا ٹھکانہ بنا ہوا ہے۔

یہاں پر پولیس مختلف اوقات میں کارروائی بھی کرچکی ہے لیکن اسکے باوجود نالہ حکومت، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی رٹ سے باہر ہے۔

کالعدم تنظیموں کی زبانی کلامی رپورٹ تودی جا چکی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ نالے میں منشیات کے دھندے میں پولیس، اینٹی نار کوٹکس فورس اور ایکسائز کی کالی بھیڑیں بھی ملوث ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شراکت داری کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ شہر کے حساس علاقے میں جہاں چند میٹر کے فاصلے پر ایرانی قونصل خانہ، بلوچستان ہائی کورٹ، بلوچستان اسمبلی اور کچھ ہی دوری پر گورنر، وزیراعلیٰ ہاﺅس، آئی جی کا دفتر واقع ہیں میں دن رات دھڑلے سے منشیات کے عادی افراد کا تانتا بندھا رہے۔

ایک سروے کے مطابق دس ہزار افراد جن میں 500 خواتین بھی شامل ہیں نالے میں آتے جاتے ہیں اور ایک بڑی تعداد ہمہ وقت نالے میں رہتی ہے، باقی کوئی شہری بشمول میڈیا کے لوگوں کی جرات نہیں کہ وہ نالے میں اترنے کی کوشش کریں۔

جناح روڈ پر نالے میں اترنے کاراستہ بند کرنے کیلئے پل کے دونوں اطراف دیوار تعمیر کی گئی لیکن منشیات فروشوں کی سہولت کے لیے دیوار کی تعمیر کے وقت کھڑکی کی مانند جگہ چھوڑی دی گئی جس پر صبح شام منشیات کے عادی افراد کی لائن لگی ہوتی ہے۔

انہی لوگوں کو منشیات فروخت کی جاتی۔ گویا دن رات چلنے والا یہ دھندہ سرکار کی ناک کے نیچے ہوتا رہا ہے، نالے کے آس پاس شہریوں سے لوٹ مار بھی ہوتی ہے۔

حالیہ آپریشن کے بعد نالے کی بندش ماضی کی مشق کو دیکھتے ہوئے عارضی لگتی ہے۔ نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ ہیروئن کا نشہ کرنے والے افراد مختلف موذی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد کالے یرقان اور ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں۔

ان افراد نے شادیاں کر رکھی ہیں اور بچوں کے باپ ہیں۔ ازدواجی تعلق سے وہ خواتین اور بچے بھی ان موذی امراض کا شکار بن جاتے ہیں، اس طرح یہ بیماریاں تیزی سے معاشرے کے اندر سرایت کررہی ہیں۔

سوال حکومت، انتظامیہ ، پولیس اور دوسرے محکموں اور اداروں کے کردار اور ساکھ پر اٹھتا ہے کہ جو دہائیوں سے نالے میں رٹ قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ سو ایسی حکومتیں اور ادارے دوسرے سنگین معاملات سے جو ریاست کیلئے چیلنج اور مشکل بنے ہیں خاک نبرد آزما ہوں گے؟۔

بہرحال کوئٹہ پولیس نے سٹی نالے کے بارے میں بہترین پیشرفت کی ہے اور بتایا گیا ہے کہ نالے میں پولیس چوکیاں قائم کی جائیں گی، ایک منظم میکنزم کے تحت اگر نگرانی ہو تو منشیات فروشوں کو یہاں سے مستقل بھگانے میں کامیابی مل سکتی ہے۔