|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2022

عمران خان نے یوٹرن ایک اور بڑی تاریخ رقم کردی ویسے تو عمران خان اول روز سے ہی اپنے ہی بہت سارے دیئے گئے بیانات دعوؤں، الزامات پر یوٹرن لے چکے ہیں۔ 2014ء سے ملک میں انقلاب لانے کی باتیں کرتے کرتے 2022ء کو ان کا انقلاب راولپنڈی جلسے میں ایک خطاب کے بعد ختم ہوگیا عمران خان اسلام آباد کی طرف مارچ کرکے حکومت سے استعفیٰ لینے کے لیے آرہے تھے مگر خود اپنی صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کااعلان کرکے واپس چلے گئے۔

عمران خان نے سائفر کا ڈرامہ رچایا لوگوں کو گمراہ کیا بتایا کہ ان کے خلاف بہت بڑی سازش امریکہ نے کی ہے کیونکہ میں نے ملک وقوم کی خودداری کے سودے سے انکار کیا تھا میں ملک وقوم کو امریکہ سمیت کسی اور کاغلام نہیں بنانا چاہتاپھر آخر میں آکر امریکہ کے متعلق یہ بات کہہ گئے کہ امریکہ سے کوئی شکوہ نہیں اس کا کوئی قصور نہیں میرے خلاف سازش ملک کے اندر ہوئی اور مجھے نکالاگیا پھر اسٹیبلشمنٹ پر بھی تابڑ توڑ حملے کرتے رہے کہ مجھے نکالنے میں اسٹیبلشمنٹ میں مبینہ طور پر ملوث تھی پھر اس بیان سے بھی یوٹرن لیتے ہوئے عوام کو بتایا کہ میں مانتا ہوں کہ مجھے نکالنے میں اسٹیبلشمنٹ ملوث نہیں تھی ۔

مگر اس سازش کو روک سکتی تھی اس بیان کے سیاق وسباق سے واضح ہوجاتا ہے کہ عمران خان کو بیساکھیوں کی ضرورت ہے اور اب بھی انہیں یہی سہارا چاہئے جو انہیں الیکشن جتوانے سے لیکر حکومت بنوانے اور بلز پاس کرانے تک کی سہولت درکار تھی۔ یہی عمران خان صاحب اپنے ہی بیان کے اندر یہ بتاتے تھے کہ وہ اسلامی دنیا کے بہت بڑے لیڈر ہیں دنیا میں جس طرح بڑے انقلاب آئے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا میں ویسے ہی انقلاب لانے کی جدوجہد کررہا ہوں بہرحال گزشتہ روز کے اسٹیج شو نے سب واضح کردیا کہ پی ٹی آئی کے راولپنڈی کے جلسے میں لوگ کتنے شامل تھے اور عمران خان کتنے مضبوط اور اپنے مؤقف پر قائم رہنے والے لیڈر ہیں استعفیٰ لینے والے استعفیٰ دینے تک آگئے۔ سابق وزیراعظم و پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے راولپنڈی کے جلسے سے خطاب میں کہا ہے کہ تمام اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سسٹم کا مزید حصہ نہیں رہیں گے۔راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے جلسے سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھاکہ کہا گیا کہ میری جان کو خطرہ ہے، گھر سے نہ نکلیں، اس ٹانگ کے ساتھ سفر کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے، اگر میں گرتا نہ تو گولیوں کا دوسرا راؤنڈ مجھے لگ جاتا۔

جب میں گرا اسی وقت مجھے پتہ چل گیا کہ اللہ نے مجھے بچالیا۔ان کا کہنا تھاکہ موت کے خوف سے خود کو آزاد کرنا ضروری ہے، مجھے ذلیل کرنے کی بہت کوشش کی گئی، میری کردار کشی کی گئی کیونکہ میں انہیں چور کہتا تھا، پاکستان آج ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا ہے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ کبھی اتنے لوگ کسی وزیراعظم کیلئے نہیں نکلے جتنے میرے لیے نکلے، آزادملک اوپر پرواز کرتا ہے، غلام صرف اچھی غلامی کرتے ہیں، غلام کی پرواز نہیں ہوتی،صرف آزاد انسان کی پرواز ہوتی ہے، صرف آزاد لوگ بڑے کام کرتے ہیں، آزاد قوم اوپر جاتی ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے ساری اسمبلیوں سے نکلنے لگے ہیں۔

اس نظام کا مزید حصہ نہیں رہیں گے، وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی کمیٹی سے بات کررہا ہوں، بجائے توڑ پھوڑ کریں اس سے بہتر ہے کہ اس نظام سے باہر نکلیں، فیصلہ کریں گے کس دن ہم ساری اسمبلیوں سے باہر نکلیں۔خیال رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جبکہ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان پہلے ہی مستعفی ہوچکے ہیں۔البتہ عمران خان کے تمام بیانات اور تقایرخطابات کا جائزہ لیاجائے اس میں نئی حکومت بات نہیں ہے پرانی باتوں کو دہراتے ہوئے ایک دولفظوں کو ہیر پھیر کرکے عوام کو نہیں بلکہ اپنی جماعت اور کارکنان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتے ہیں۔ اب انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بات کی ہے تو راولپنڈی میں فیصلہ کرکے چلے جاتے اعلان کرکے پھر مشاورت کا لفظ استعمال کیا بڑی چالاکی سے لفظوں کے ساتھ کھیل کر چلے گئے کیونکہ عمران خان اگرپنجاب کی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کے اندر بلاک آزاد امیدوار کی مرضی و منشاء لازم شامل ہونا ہے ۔

پھر انہوں نے مشاورت کی بات کی اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اندرون خانہ ٹوٹ پھوٹ ہوسکتا ہے اورپی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پنجاب، کے پی میں عدم اعتماد کی تحریک لائینگے جس سے اسمبلیاں تحلیل نہیں ہونگی۔ عمران خان آئندہ چند ماہ اسی طرح سیاسی کھیل کھیلتے رہینگے اور مقررہ حکومتی تاریخ کے ہی مطابق الیکشن میں حصہ لینگے مگر اس دورانیہ میں وہ اپنی جماعت وکارکنان کو مصروف رکھنے کے لیے نئے شوشا چھوڑتے رہینگے اور سیاسی ماحول کو گرماتے رہینگے مگر ہاتھ کچھ لگنے والا نہیں اب جو ہوگا عام انتخابات میں ہی اس کے نتائج نکلیں گے مگر اب عمران خان کی سب سے زیادہ توجہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا ہے اور تمام تر اپنی توانائی اسی پر صرف کرینگے۔