|

وقتِ اشاعت :   November 30 – 2022

بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر، گزشتہ روز کوئٹہ کے علاقے بلیلی میں ہونے والے خود کش حملے میں پولیس اہلکار، دو بچے اور ایک خاتون جاں بحق ہوگئیں جبکہ 27افراد زخمی ہوئے۔پولیس کے مطابق خود کش دھماکے میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا، دھماکے کے باعث قریب سے گزرنے والی گاڑیاں بھی زد میں آگئیں۔

پولیس کا کہناہے کہ دھماکے میں پولیس اہلکاروں سمیت عام شہری بھی زخمی ہوئے، دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو سول اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ڈی آئی جی غلام اظفر مہیسر کا کہنا ہے کہ بلیلی دھماکے میں ایک پولیس اہلکار، دو بچے اور ایک خاتون جاں بحق جبکہ 22پولیس اہلکاروں سمیت 27افراد زخمی ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ خود کش حملے میں 20 سے 25 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔

پولیس اہلکار ٹرک پر پولیو ڈیوٹی کے لیے جا رہے تھے۔ بلوچستان پہلے سے ہی دہشت گردی کا شکار رہ چکاہے متعدد قیمتی جانیں جاچکی ہیں بلوچستان کے عوام گزشتہ کئی دہائیوںسے امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ خاص کر انتہاء پسندوں کی جانب سے خود کش حملوں کے ذریعے بلوچستان کو زیادہ نشانہ بنایاگیا جس میں ڈاکٹر، وکلاء، فوج، پولیس،شہریوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ بلوچستان میں ایک بڑا مسئلہ غیر قانونی طور پر مقیم باشندے ہیں۔

اول روز سے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ بلوچستان میںموجود غیرملکی باشندوں کے انخلاء کو یقینی بنایاجائے، انہیں دوبارہ اپنے وطن باعزت طریقے سے بھیجا جائے جو پوش علاقوں میں اس وقت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ بلوچستان کی معیشت اور سیاست پر بھی ان کا اثرونفوذ بڑھتاجارہا ہے ایک بات واضح رہے کہ یہ وہی بلوچستان ہے جو کسی دور میں امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا یہاں کے کلچر میں دہشت گردی، انتہاء پسندی، اسلحہ،منشیات جیسی لعنت کبھی نہیں رہی مگرافغان جنگ کے بعد جس تیزی کے ساتھ افغان باشندوں کی غیر قانونی آمد بلوچستان میں ہوئی تو انہوں نے بلوچستان کے سماجی ومعاشرتی ڈھانچے کو بری طرح متاثرکرکے رکھ دیا۔ کئی دہائیوں سے ان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور غیرقانونی طریقے سے یہ بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں حکومتی سطح پر بلوچستان کی سرحد پر فینسنگ کا عمل شروع کیا گیا مگر تاحال وہ مکمل نہیں ہوسکا ہے اس کی ایک بڑی وجہ طویل سرحدی پٹی ہے جس پر مکمل فینسنگ اور کنٹرول کسی چیلنج سے کم نہیں مگر دہشت گرد فینسنگ کے عمل کے دوران بھی حملہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سرحد پر موجود جوان شہید ہوتے ہیں۔

اور حال ہی میں پاک افغان سرحدچمن باب دوستی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے بعد سرحد کو بند کردیا گیا۔ بہرحال ایسے متعدد واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں جن کے تدارک کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ کوئٹہ بلیلی حملہ ایک الارمنگ صورتحال ہے جسے سنجیدگی سے لینا چاہئے اور دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے انہیں کیفرکردار تک پہنچایاجائے۔ دوسرا بڑا مسئلہ جس کی نشاندہی کی گئی کہ غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کی واپسی کو یقینی بنایاجائے جس پر بلوچستان کی تمام جماعتیں متفق ہیں۔ امید ہے کہ دیرپا امن کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کی واپسی سمیت دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائینگے تاکہ بلوچستان میں حالیہ جو بدامنی کی لہر پیداہونے جارہی ہے اس پر قابو پایاجاسکے۔