|

وقتِ اشاعت :   December 1 – 2022

سیاستدانوں کی خواہشات کی تکمیل ہی اصل جمہوریت کی روح ہے اپنے من پسند نظام کولاگو کرنا ان کی اولین ترجیح ہے اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔

بدقسمتی سے ملک میںکئی دہائیوں تک غیرجمہوری ادوار گزرے اور اس کی وجہ ہمارا کمزور پارلیمانی نظام رہا ہے۔ سیاستدانوں کی آپسی لڑائی، انتقامی کارروائیاں، اقتدار کی رسہ کشی میں پورے نظام کو اپنے تابع کرکے چلانا ان تمام عوامل کی وجوہات رہی ہیں۔

پاک فوج کے سابق سربراہ (ر)جنرل قمرجاوید باجوہ نے اپنے آخری چند ماہ کے دوران برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اب فوج سیاست میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی, سیاسی معاملات کو خود سیاسی جماعتیں حل کریں جبکہ موجودہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم ملکی تاریخ کے پہلے چیف ہیں جو موجودہ سیاسی صورتحال پر پہلی بار میڈیا کے سامنے آکر بات کی۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میںکہا کہ غیرسیاسی رہنے پر ہم پر بے بنیاد الزامات لگانے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ۔لیکن انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرینگے انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ جو لوگ ہم پر الزامات لگارہے ہیں وہی ہم سے خفیہ ملاقات کرکے اپنی خواہشات کا اظہار بھی کررہے ہیں اور وہ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان تھے جنہوں نے سابق آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینے کی بھی پیشکش کی تھی مگر اس پر انہوں نے انکار کیا۔ اب جنرل قمرجاویدباجوہ چلے گئے ہیں مگر جو سیاسی نقوش 2014ء کے بعد ملک پر رہے ہیں۔

وہ اب بھی زیر بحث ہیں ،کسی نہ کسی طرح یہ بات دہرائی جارہی ہے کہ کس طرح سے پی ٹی آئی کو مکمل اہتمام کے ساتھ اقتدار میںلایا گیا اور اس کے بعد بھی ساڑھے تین سال تک ان کی حکومت کو سپورٹ کیا گیا،ان کی خواہشات کی تکمیل ہوتی رہی اور یہ سب نے دیکھا بھی کہ عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو کس طرح سے جیلوں میں ڈالا، میڈیا پر قدغن لگایا، صحافیوں کے اغواء اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، نیب جیسے ادارہ کو بھی استعمال کیا ۔

عمران خان کی یہ خواہش رہی کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف تک ان کی مرضی کے آئیں تاکہ مزید دس سال تک وہ حکومت کرتے رہیں ۔دس سالہ پلان کے اندر صدارتی نظام بھی لاناتھا جس میں فرد واحد یعنی عمرانی حکومت قائم ہوسکے اور ون مین کے ذریعے پورے ملک کے نظام کو چلایاجاسکے ۔ عمران خان کی آخری وقت تک یہ کوشش رہی لیکن جب ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو انہوں نے عوامی اجتماعات سمیت ہر فورم پر عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ میرجعفر،میرصادق ، نیوٹرل، جانور، چوکیدار جیسے القابات استعمال کئے گئے اور عوام کو بتایا کہ گھر پر جب ڈاکہ پڑجائے اور چوکیدار یہ کہہ دے میں نیوٹر ل ہوں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تضادات سے بھرے بیانات کھل کر سامنے آئے ،امریکی سازش کا بیانیہ بنایا، ایک خط جسے سائفر کانام دیکر جلسے میں لہرایا۔

اور بار بار اس کا تذکرہ کیا کہ ا مریکہ نے میرے خلاف سازش کی اور کردار ملک کے اندر اور باہر تھے ۔امپورٹڈحکومت مسلط کرنے کی بات کی پھر امریکی سازش سے پیچھے ہٹ گئے ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے عمران خان نے عوام کو بتایا کہ مان لیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس سازش میں ملوث نہیں تھی مگر عدم اعتماد کی تحریک کو روک تو سکتی تھی یعنی براہ راست اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے تھے اور گزشتہ روز ایک بار پھر اپنے ٹوئٹر پیغام میں موجودہ آرمی چیف کو مبارکباد دیتے ہوئے سیاست سے دور رہنے کا حوالہ دے رہے تھے ۔بہرحال عمران خان کی خواہش اب بھی نہیں بدلی اور نہ ہی لاڈلے والی عادت میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔

ان کی خواہش اب بھی یہی ہے کہ انہیں دوبارہ حکومت میں لانے کا بندوبست کیاجائے جس کے لیے وہ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے مگر یہ شاید خواہش ہی رہے گی جس کی اب تکمیل کے آثار دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ پاک فوج واضح پیغام دے چکی ہے کہ اب وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی جو ایک اچھی بات ہے۔