|

وقتِ اشاعت :   March 14 – 2023

بلوچستان میں ناراض بلوچوں سے بات چیت کے متعلق اہم انکشاف وزیرداخلہ میرضیاء اللہ لانگو نے کی ہے کہ ان کے ساتھ بیک ڈور بات چیت چل رہی ہے۔ سابق صدر وآرمی چیف جنرل(ر) مشرف کے دور میں بلوچستان کے حالات اس وقت خراب ہوئے جب بلوچستان کے بزرگ سیاستدان نواب اکبرخان بگٹی کو 2006ء میں تراتانی کے پہاڑوں میں شہید کیا گیا مگر اصل حقائق اب تک سامنے نہیں آئے اور جو معلومات ذرائع ابلاغ تک پہنچائی گئیں ان میں ابہام بہت زیادہ ہے۔ جبکہ حکومتی سطح پر نواب اکبرخان بگٹی کی نمازجنازہ اور تدفین کے عمل میں اپنایا گیا رویہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ بہرحال جس طرح مشرف نے بلوچستان کے مسئلے کو ڈیل کیا وہ انتہائی غیرمناسب اور غیر سیاسی تھا، اس بات کو ق لیگ کی قیادت نے خود تسلیم کیا تھا جبکہ پارلیمانی کمیٹی نے بھی مشرف پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔

اگر بلوچستان مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے جہاں اب ہیں۔ پرویزمشرف کے دور میں بلوچستان میںمیگامنصوبوں کی پالیسی بنائی گئی مگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیاگیا جس کے خلاف چار جماعتی اتحاد تشکیل دی گئی جس میں جمہوری وطن پارٹی، بی این پی، نیشنل پارٹی اور حق توار شامل تھی اور انہوں نے اپنے تمام مطالبات سامنے رکھے ،ان نکات میں کوئی بھی ایسا مطالبہ شامل نہیں تھا جو ملکی آئین اور قانون سے متصادم ہو بلکہ یہی مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر بلوچوں کے حق کو تسلیم کیاجائے اور جو منصوبے یا ترقیاتی کام ہونگے ان پر اعتماد کی بحالی ضروری ہے مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا ۔ چوہدری شجاعت ، چوہدری پرویز الہٰی سمیت پارلیمانی پارٹی کے ساتھ مذاکرات کے مختلف دور چلے مگر وہ بے سود ثابت ہوئے کیونکہ پرویز مشرف نے یہ طے کرلیا تھا کہ مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنا ہے جو غلط تجربہ ثابت ہوا۔ اس کے بعد پھر سے نئی حکومتوں نے کوششیں کیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اب ایک بار پھر بلوچستان کے ناراض بلوچوں سے بات چیت کی بازگشت چل رہی ہے اور اس کا انکشاف صوبائی وزیرداخلہ میرضیاء اللہ لانگو نے کیا ہے۔ وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہاکہ ناراض بلوچوں کے ساتھ بیک ڈورچینل سے مذاکرات چل رہے ہیں لیکن ان میںایسے مطالبات ہیں جو ملک دشمنوں کی زبان ہوتی ہے جن کو ریاست پاکستان کیلئے تسلیم کرنا ممکن نہیںہے،پاکستان کے فریم ورک میںرہتے ہوئے بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کررہے ہیں،وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو چیف ایگزیکٹو ہے ان کے فیصلے صوبے کے مفاد میں ہونگے،بلوچستان کے مفادات جان سے زیادہ عزیز ہیں اور میں بلوچستان کے فرزند ہونے کے ناطے ہمیشہ بلوچستان کے مفادات کا دفاع کرتا رہوں گا۔ نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے وزیرداخلہ میرضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ میرعبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہیں صوبائی حکومت کو احسن طریقے سے چلا رہے ہیںان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کے بہتر مفاد میںفیصلے کریں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے ناراض بلوچوں کومذاکرات کی میز پر آنے کی جو پیشکش کی ہے صوبے کے سیاسی جماعتوں کی بھی یہی خواہش ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم روز اول سے کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کے تمام مسائل کا حل مذاکرات اور بات چیت کی میز پر ہے، ناراض بلوچ آجائیں ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔ان کے جائز حقوق اور مطالبات پر ان کے ساتھ ہوںگے،روز اول سے کشت وخون،ناحق پاکستانیوں کا قتل عام،پنجابیوں کو مارنے کے خلاف ہیں۔

بہرحال انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سب ہی خلاف ہیں جنگ بندی کے لیے سیز فائر ہونا اولین شرط ہے تاکہ طاقت کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلے کو آگے بڑھایاجائے اگر کوششیں تیز کی جائیں اور بات چیت کے لیے مزید اسٹیک ہولڈرز کو درمیان میں لاکر اس عمل کو آگے بڑھایاجائے تو کچھ نہ کچھ نتیجہ نکلے گا اس کے لیے ساز گار ماحول بھی ضروری ہے۔ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بات چیت ناگزیر ہے اس کے لیے سب کا کردار انتہائی اہم ہے۔ امید ہے کہ بات چیت بامقصد اور نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔