|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2023

بلوچستان کی طویل سرحدی پٹی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی حوالے سے جس طرح سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے بدقسمتی سے اس پر کوئی توجہ اور پالیسی نہیں اپنائی جارہی ہے۔ ایران اور افغانستان سمیت سینٹرل ایشیاء ودیگر ممالک کے ذریعے ریلوے ٹریک، شاہراہیں بناکر درآمدوبرآمد کے لیے باقاعدہ اعلیٰ سطح پر اقدامات اٹھائے جائیں تو ملک میں بہت بڑا معاشی انقلاب آئے گااور موجودہ معاشی بحران سے نکلنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔ ہمارے پاس تمام تر وسائل اورذرائع موجود ہیں جن سے معاشی حوالے سے خود کفالت سوفیصد ممکن ہے اور قرض لینے کی نوبت تک نہیں آئے گی مگر المیہ یہ ہے۔

ایک تو صوبوں کو ان کے جائزمقام اور حقوق نہیں دیئے جاتے جو آئین کے اندر موجود ہیں اس پر باقاعدہ عمل نہیں کیاجاتا محض بیانات اور اعلانات کے ذریعے یہ بتایاجاتا ہے کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں لانے کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جائینگے اور ماضی کی تمام تر غلط پالیسیوں کو رد کرتے ہوئے بلوچستان کی سیاسی،مذہبی جماعتوں سمیت عوام کے شکوے دور کئے جائینگے مگر اس پر پالیسی نہیں بنائی جاتی اور جب اس پر پیپرورک نہیں ہوتا،مسلسل اجلاس کے ذریعے معاشی پالیسی مرتب کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیاجاتا کسی صورت بھی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی،یہ صرف بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی،پسماندگی کے خاتمے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت کی بہتری کے وسیع تر مفاد میں ہے مگر جس طرح سے بلوچستان کے ساتھ ڈیل کیاجارہا ہے اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ سرحدوں پر اسمگلنگ سمیت دیگر غیر قانونی کام ہورہے ہیں جب سرحدپر قانونی طور پر تجارت ہوگی تو اس طرح کے عمل کو روکنے میں مددملے گی۔

اب تو المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کی سرحدوں سے گندم، یوریا، چینی کی اسمگلنگ کی جارہی ہے اس پرچیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی کا جمعرات کو پراونشل ٹاسک فورس برائے انسداد اسمگلنگ اجلاس کے دوران کہنا تھاکہ صوبے میں گندم، یوریا، چینی، آٹا کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کیساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے گی کیونکہ چینی، یوریا کی اسمگلنگ سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ اسمگلنگ کی وجہ سے ملک و صوبے کی معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے ان اقدامات کا مقصد عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔

اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں فرق اسمگلنگ کی وجہ بنتی ہے، اسمگلنگ کی وجہ سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مختلف جوائنٹ چیک پوسٹوں (پداگ، لانڈھی، دالی، جنگیان، ڈیرہ اللہ یار ٹول پلازہ، گڑنگ، شیخ واصل، پنجپائی، اور گلنگور) پر اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایف سی، کسٹم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے موجود ہوں گے۔بہرحال چیف سیکریٹری بلوچستان کا یہ اچھا اقدام ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے تمام تر وسائل بروئے کارلائے جارہے ہیں مگر مسئلے کا مستقل حل معاشی پالیسی پر منحصر ہے جب تک اس پرکام نہیں ہوگا اسمگلنگ اگر بڑے پیمانے پر نہیں ہوگی تو چھوٹے پیمانے پر یہ سلسلہ چلتا رہے گا اس لیے وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو صوبائی حکومت سمیت اسٹیک ہولڈرز اٹھائیں تاکہ بلوچستان کومعاشی نقصان کے بجائے فائدہ پہنچ سکے۔