|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2023

پاکستان بدترین معاشی صورتحال سے گزررہا ہے تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی صورتحال پیداہوگئی ہے کہ لوگوں کو گھرکے اخراجات پورے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے یہ بتایاجاتا ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں غلط معاشی پالیسیوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں مگر اس کے بعد پی ڈی ایم کی مشترکہ جماعتوں نے حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالی تو کیا معاشی پالیسی تھی کہ ملک کو موجودہ معاشی چیلنجز سے نکالاجاسکتا تھا ،چونکہ یہ توقع سے باہر تھی کہ پی ڈی ایم جماعتیں حکومت بنائینگی اورپھر اس کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

پہلے بتایا گیا کہ پی ڈی ایم سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں الیکشن کی طرف جائے گی اور یہ بات ن لیگ کی جانب سے کی گئی تھی کہ میاں محمد نواز شریف حکومت لینے کے فیصلے سے نالاں تھے مگر اب تسلسل کے ساتھ حکومت چل رہی ہے ۔ اوراب یقینا جو مسائل پیداہوئے ہیں ان کا ملبہ موجودہ حکومت خاص کر ن لیگ پر ضرور گرے گا اور اسے تنقید برداشت بھی کرناپڑے گی کیونکہ حالات کا اندازہ پہلے سے ہی ن لیگ کو تھا کہ معاشی صورتحال کیا ہے اور اس وقت حکومت لینے میں کیا دقت اور مشکلات کا سامنا کرناہوگا۔

بہرحال اب رپورٹس سامنے آنے لگی ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں۔ گزشتہ روزملک میں مہنگائی سے متعلق جاری کردہ نئی رپورٹ نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا، دیوالیہ ہونے والا ملک سری لنکا بھی پاکستان سے پیچھے رہ گیا۔امریکی جریدے بلوم برگ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 35 فیصد رہی جو پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔

اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان نے مہنگائی میں دیوالیہ ہونے والے سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال پاکستانی روپیہ بدترین گراوٹ کا شکار رہی، جو ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد گری ہے جبکہ دوسری طرف سری لنکا معاشی بحران پر قابو پاتا دکھائی دے رہا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں ماہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔واضح رہے کہ وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح 36.4 فیصد ہونے کے بعد 59 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔

اپریل میں پاکستان میں مہنگائی مزید 2.41 فیصد بڑھی جو ملکی تاریخ میں 1964 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ جولائی سے اپریل مہنگائی کی اوسط شرح 28.23 فیصد ریکارڈ کی گئی ۔ ایک سال میں صرف سگریٹ کی قیمت میں 159.89 جبکہ چائے کی قیمت میں 108.76 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔اسی طرح آٹا 106.07 فیصد، گندم 103.52 فیصد، انڈے 100 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چاول اور دال مونگ کی قیمتوں میں 87 فیصد اور 57 اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب وفاقی بجٹ 9 یا 10 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ذرائع وزرات خزانہ کے مطابق قومی اقتصادی سروے 8 جون کو جاری کیے جانے کا امکان ہے، وزیراعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس جون کے پہلے ہفتے میں بلایا جائیگا۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ سالانہ منصوبہ بندی کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس مئی کے وسط میں ہوگا، سالانہ منصوبہ بندی کوآرڈینیشن کمیٹی ترقیاتی بجٹ کے خدوخال تیار کرے گی۔ذرائع کے مطابق بجٹ تیاری میں آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب آئی ایم ایف کے شرائط تسلیم کرنے کے بعد جو قسط ملے گی کیا اس کے بعد مہنگائی کا نیا طوفان نہیں آئے گا اور وہ کون سی شرائط ہیں جو آئی ایم ایف منوانا چاہتی ہے اور حکومت بتانے سے قاصر ہے جبکہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیرخزانہ سمیت دیگر حکومتی ذمہ داران بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے تمام شرائط مان لیے گئے ہیں اور جلد نئی قسط کا اجراء ہوگا ۔ حقائق کو سامنے لانا ضروری ہے تاکہ عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے مستقبل کے فیصلے کئے جاسکیں۔ البتہ آئی ایم ایف کے مزید شرائط کے بعد ملک میں معاشی حالات بہتر ہونگے یا مزید مہنگائی سے عوام کے مسائل بڑھیں گے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے جس کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے۔