|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2023

تربت: بالاچ مولابخش احتجاجی کیمپ 14 دنوں جاری رہنے کے بعد تربت سے کوئٹہ کی جانب روانہ،

لاپتہ افراد کے فیملی ممبران بڑی تعداد میں مارچ کا حصہ ہیں، ہیرونک، تجابان، شاپک اور ہوشاپ سمیت مختلف مقامات پر لوگوں نے لانگ مارچ کا فقیدالمثال استقبال کیا۔ شہید فدا چوک تربت میں 14 دنوں سے قائم بالاچ مولا بخش احتجاجی کیمپ لانگ مارچ کی صورت میں بدھ کی دوپہر کوئٹہ کی جانب کوچ کرگئی، ڈنگر تھانہ کے نزدیک عوام نے بڑی تعداد میں لانگ مارچ کو تربت سے رخصت کیا،

لانگ مارچ کی قیادت بساک کے سابقہ چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، وی بی ایم پی کے جنرل سیکرٹری سمی دین،

بانک سیما بلوچ، حق دو تحریک کے رہنما وسیم سفر اور تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست کررہے ہیں جب کہ عالم دین مولانا صبغت اللہ شاہ جی ساتھیوں کے ہمراہ پنجگور تک لانگ مارچ کا حصہ ہوں گے، اس مارچ میں لاپتہ افراد کے فیملی ممبران میں خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد شامل ہے،

لانگ مارچ کا ہیرونک، سامی، تجابان، شاپک اور ہوشاپ سمیت مختلف گاؤں اور دیہاتوں میں خواتین اور بچوں نے شاندار استقبال کیا اور ان کے حق میں قومی گیت گائے، انہیں سلام پیش کیا اور نعرہ لگائے، لانگ مارچ بدھ کی رات تک پنجگور پہنچے گا

جہاں پر قیام کے بعد صبح کو لاپتہ افراد کی رجسٹریشن کے لیے آگاہی جلسہ منعقد کیا جائے گا جب کہ اسی شام کو لانگ مارچ خضدار کی جانب سفر کرے گا۔ یاد رہے کہ تربت میں شہید فدا چوک پر بالاچ مولابخش احتجاجی کیمپ کا آغاز 23 نومبر کو بالاچ مولابخش کی تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سی ٹی ڈی کے زریعے حراستی قتل کے بعد کیا گیا،

شہید فدا چوک پر ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین نے بالاچ مولابخش کو انصاف دلانے اور لاپتہ افراد کی حراستی قتل بند کرنے کے لیے دھرنا دیا جب کہ احتجاجی کیمپ سے تین مرتبہ عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں،

4 مرتبہ شٹرڈاؤن ہڑتال اور دو مرتبہ کامیاب پہیہ جام کی کال دی گئی جو مکمل صورت میں کامیاب رہے۔

احتجاجی کیمپ میں عام لوگوں کے علاوہ سیاسی و سماجی شخصیات، بلوچ دوست علما ،طلبہ و طالبات کے علاوہ مختلف شعبہ فکر سے وابستہ مرد و خواتین نے شرکت کی جب کہ کوئٹہ و کراچی سے بھی سیاسی و سماجی شخصیات بھی یکجہتی کے اظہار کے لیے کیمپ آئے