|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2024

کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ جب ہم ریاستی دہشتگردی ، مسنگ پرسنز کا ذکر کرتے تھے تو ملک کے دوسرے حصے کے لوگ اور سیاسی پارٹیاں اس مسلے کو مذاق سمجھ کر ہم پر طنز کرتے تھے لیکن وقت اور حالات نے ان کو بھی اس بات پر متفق کرلیا کہ یہ مسئلہ نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے،پرائم منسٹر شہباز شریف اکثر مجھے کہتے تھے کہ ہاتھ ہلکا رکیں بھائی لوگ ناراض ہوجائیں گے

اگر میں بھی ان کی بات مان لیتا تو شاید ہماری نشستیں ایک کے بجائے پانچ یا چھ ہوجاتیں،ہمیشہ الیکشن نتائج کے بعد سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگاتی رہتیں ہیں یا آر او پر یا عدلیہ پر کبھی آر ٹی ایس سسٹم کو کبھی مقامی انتظامیاں کو مورزِالزام ٹہرایا جاتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک کا کونسا وہ الیکشن ہے جو متنازعہ نہ رہا ہو۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کہتے ہیں کہ آئین ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ فوج کو ہم تنقید کا نشانہ بنائیں، جس پر میں نے کہا کہ بہت شکریہ ڈپٹی سپیکر صاحب، آئین کی وہ شق بتا دیں جس میں یہ لکھا ہے کہ فوج ہماری پگڑیاں اچھالیں،جب ہم ریاستی دہشتگردی ، مسنگ پرسنز کا ذکر کرتے تھے تو ملک کے دوسرے حصے کے لوگ اور سیاسی پارٹیاں اس مسلے کو مذاق سمجھ کر ہم پر طنز کرتے تھے لیکن وقت اور حالات نے ان کو بھی اس بات پر متفق کرلیا کہ یہ مسئلہ نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے،پرائم منسٹر شہباز شریف اکثر مجھے کہتے تھے

کہ ہاتھ ہلکا رکیں بھائی لوگ ناراض ہوجائیں گے اگر میں بھی ان کی بات مان لیتا تو شاید ہماری نشستیں ایک کے بجائے پانچ یا چھ ہوجاتیں مگر،وہ ناراض ہیں تو ناراض ہونے دو غالب کسی کے قدموں میں گر کر جینا ہمیں نہیں آتا انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال ابتری کا شکار ہے کاروبار میں مندی کا روجان ہے درآمد اور برآمد نہ ہونے کو ہے نہی صنعتیں لگنے کے بجائے پرانی صنعتیں بھی بند ہوتی جارہی ملکی اور بیرونی سرمایہ دار سرمایہ کاری کے لئے ہر گز تیار نیں بیروزگاری اپنی انتہاہ تک پہنچ چکی ہے اس کے باوجود صرف ایک شہبہ جو ترقی کی طرف گامزن ہے وہ ہے

پارلیمنٹ جس پہ اس بار جو سرمایہ کاری ہوئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس الیکشن یا اس سے پہلے کے الیکشن جیت گیا ہے تو یہ اس کی بھول ہے ان سب میں جیت جمہوریت کی نہیں بلکہ عسکریت کی ہوئی ہے ، عسکریت نے ہمیشہ جمہوریت کو شکست دی ایم آر ڈی ، اے آر ڈی ، پی ڈی ایم کو شکست بھی عسکریت نے دی ملک کے خفیہ اداروں کی ذمہداری دشمن ممالک کے اداروں کو مفلوج اور شکستِ فاش دینا ہے مگر افسوس کہ جب اپنے ہی ادارے ملک کے سیاسی ، تعلیمی ، عدالتی اداروں کو تیس و نیس کردیں تو پھر گلا کس سے کیا جائے۔ہمیشہ الیکشن نتائج کے بعد سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگاتی رہتیں ہیں

یا آر او پر یا عدلیہ پر کبھی آر ٹی ایس سسٹم کو کبھی مقامی انتظامیاں کو مورزِالزام ٹہرایا جاتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک کا کونسا وہ الیکشن ہے جو متنازعہ نہ رہا ہو ؟ چاہے وہ محترمہ فاطمہ جناح کا الیکشن ہو یا 1970اور 1977یا اس کے بعد کے الیکشن مشرقی پاکستان کے لوگوں کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرتے ہوئے ملک کو دولخت کرنا منظور مگر اقتدار دینے کے لئے تیار نہیں ووٹ کو عزت دینے والوں نے اس بار ووٹ کو وہ عزت دی جو حج کے دوران شیطان کو کنکر مار کر دیجاتی ہے۔