|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2024

دوسرا اورآ خری حصہ
پانچواں منظر
سردار خان، ساٹھ کے پیٹے میں ایک لمبا تڑنگا طاقتور سردار، اپنے قبیلے کے افراد کے درمیان روایتی سفید شلوار قمیض اور اونچی پگڑی میں سینہ تانے بیٹھا تھا۔مگر اسے آج اپنے سینے پر کسی نامعلوم بوجھ کا احساس تھا۔ ان سب کے چہروں پر فکر کی شکنیں واضح تھیں۔ متاثرہ بچوں کی خبر ان تک پہنچ چکی تھی اور ساتھ ہی پولیو کے ایک نئی لہر کی خبر بھی۔
یہ اپاہج پن اللہ کی طرف سے ہم پر عذاب ہے۔ سردار خان کی آواز گونجی۔
اسی اثنا میں ایک نوجوان اٹھا۔ وہ سوشل میڈیا پر کافی متحرک تھا اور آئشہ کی حوصلہ مندی اور دستیاب معلومات نے اسے مزید دلیر بنا دیا تھا۔
سردار خان!نوجوان نے ادب سے خان کو مخاطب کیا۔ پولیو ایک عذاب نہیں ہے بلکہ ایک بیماری ہے اور اس کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔
سردار خان کی گھنی بھنوئیں تن گئی۔ اس کے لیے بیماری کا تدارک ایک نئی بات تھی۔
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عائشہ جو مجمعے میں موجود تھی آگے بڑھی۔ قبیلے کے ایک معزز خاندان سے تعلق اور صحت کی ورکر ہونے کی وجہ سے عائشہ کا اس مجمعے میں موجودگی کوئی اچنبہ نہیں تھا۔ اس نے بہت ہی سادہ اور آسان الفاظ میں وضاحت کی کہ کس طرح پولیو وائرس ایک بچے سے دوسرے بچے تک پہنچتا ہے اور کیسے پولیو کی ویکسین پلانے سے بچے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جتنے زیادہ بچوں تک پولیو کے قطرے پہنچے گے اتنا ہی اس موذی مرض کو زندہ رہنے میں مشکلات ہونگی۔
سردار خان انہماک سے سنتا رہا۔ اس کی بَھنو ؤںکے بیچ اب ایک لکیر شکن کی صورت پیدا ہوچکی تھی۔ بیماری قسمت کا کھیل نہیں بلکہ کوئی ویکسین اس کا راستہ روک سکتی ہے یہ بات اس کی روایتی عقیدے کو جھنجوڑ رہی تھی۔ مگر عائشہ کی وضاحت سردار خان کی ابھرتی ہوئی روایتی مزاحمت کو کم کر رہی تھی۔
تو تمھارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین نہ صرف ایک بچے کی حفاظت کرتی ہے بلکہ پورے گاوں کے بچوں کی حفاظت کی بھی ضامن ہے؟ سردار خان نے پوشیدہ انداز سے للکارتا سوال پوچھا۔ تاہم سوال میں تجسس نظر آرہا تھا۔
بالکل خان! عائشہ نے تصدیق کی۔ جتنے ذیادہ بچے ویکسین کے قطرے پئیں گے پولیو وائرس کو پھیلنے میں اتنا ہی ذیادہ مشکل ہوگی۔ بالاآخر اس وائرس کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی اور یہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔
حجرے میں گہری خاموشی چھا گئی۔ سردار خان سوچ میں پڑ گیا اور بے خیالی میں اپنی گھنی داڑھی میں انگلی پھیرتا رہا۔ قبیلے کے افراد ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کا تفکر امید میں بدل رہا ہو۔
بلاآخر سردار خان نے سر اٹھایا اور عائشہ سے نظریں ملانے لگا۔
ٹھیک ہے۔ ہم قبیلے کا ایک بڑا اجتماع بلائیں گے اور تم، عائشہ، اس ویکسین کے بارے میں لوگوں کو بتاؤ گی۔
عائشہ کے چہرے پر طمانیت کی لہر دوڑ گئی۔ سردار خان کی تائید ایک بڑا معرکہ تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
شکریہ سردار خان۔ وہ خلوص سے بولی۔ ہم ملکر ہی اس وائرس کو شکست دیں گے۔
چھٹا منظر
گاؤں کا مرکزی میدان لوگوں سے کھچاکچ بھرا ہوا تھا۔ گاؤں کے لوگ سرگوشیاں کر رہے تھے۔ جیسے ہی سردار خان کا قوی جثہ نظر آیا ایک خاموشی سی چھا گئی۔ اس معزز قبائلی سردار کی موجودگی احترام کا مطالبہ کررہی تھی۔
مجمعے کو سب سے پہلے ملا بشیر نے مخاطب کیا۔ اس کی آواز میں سابقہ طاقت بحال ہوچکی تھی۔ سفید شلوار قمیض کے اوپر اپنے چغہ کو صحیح کرتے ہوئے دینی علوم کا سمندر شیخ الحدیث بولنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ تاہم خیر تو دونوں ہی میں ہے۔’’ یہ اجتماع ہماری بھلائی کے لیے ہے۔ ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے۔ ملا بشیر نے بات آگے بڑھائی۔ اس کی آواز میں جید عالموں والا اثر تھا۔ اللہ نے ہمیں اس بیماری کے خلاف نہ صرف علم عطا فرمایا ہے بلکہ ویکسین کی صورت میں ایک زریعہ بھی۔ ویکسین ایک نعمت ہے۔ اس ویکسین سے انکار اللہ کی جانب سے بھیجی گئی نعمت سے انکار ہے۔
ملا بشیر کی اسلامیت سے لبریز آواز مجمعے کو چیرتی ہوئی ہر کان میں عقل و دانائی کے بیج بو رہی تھی۔ اس نے سب کو متنبہ کیا کہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کی صحت کا خیال رکھنا نہ صرف دنیاوی ضرورت ہے بلکہ اسلامی فریضہ بھی۔
اب سردار خان کی باری تھی۔ اس نے بتایا کہ کیسے کم علمی کی بنیاد پر وہ اس تمام معاملہ کو شک کی نظر سے دیکھتا تھا۔مگر آج عائشہ کی وضاحت کے بعد اسے ویکسین کی طاقت کا ادراک ہوا۔ اس نے تمام لوگوں کو آنے والی پولیو کی مہم میں حصہ لینے پر زور دیا اور ہر فرد کو یہ باور کرایا کہ صحتمند قبیلہ ہی طاقتور قبیلہ ہوتا ہے۔ ساتھ میں اس نے یہ عزم بھی کیا کہ وہ چمن کو ایک صحتمند معاشرہ بنا کر دم لے گا۔
آخر میں عائشہ نے خطاب کیا۔ اس نے بتایا کہ پولیو ویکسین باقی سائنسی ادویات جیسی ہی بے ضرر اجزاء سے بنی ہے اور تمام دنیا میں اسی ویکسین کے ذریعے پولیو وائرس کا خاتمہ ممکن ہوا۔ حتیٰ کہ سعودی عرب نے اسی ویکسین کو استعمال کرتے ہوئے اس موذی مرض سے چھٹکارہ پایا اورآج بھی ہوائی جہاز کے اڈوں پر سعودی عرب میں داخلے کے لیے پولیو ویکسین کی شرط بڑوں اور چھوٹوں کے لیے یکساں ضروری ہے۔ عائشہ نے حسن اور سلیم کی مثالیں دی۔ ان کے معصوم خوابوں کو تاریکی میں بدلنے کی کہانی سنائی۔ البتہ اس نے امید کی بات کی اور اس عزم کی بات کی جہاں ایسے واقعات پھر کبھی نہ رونما ہو۔
اس کے الفاظ ہجوم میں گونج رہے تھے۔ وہاں موجود ماوؤں نے اپنے بچوں کو سینے سے قریب کیا۔ ہر باپ کے چہرے پر ہمت اور امید کی نئی کرنیں پھوٹ رہی تھی۔ مایوسی کی سرگوشیاں آہستہ آہستہ اب تائید میں بدل رہی تھی۔
ساتواں منظر
وہ دن آگیا۔ پولیو مہم کا آج پہلا دن تھا۔ چمن کی عمومی خاموش رہائشی آبادیاں آج ایک عجیب سے شور سے اٹی ہوئی تھی اور عائشہ پولیو ویکسین اور برف سے بھرے نیلے ڈبے کو بغل میں لیے پولیو کی باقی رضاکار خواتین کے ساتھ سر اونچا کیے چل رہی تھی۔ ان سب کی راہیں الگ الگ تھیں۔ ہر گھر کی دہلیز پر پہنچنا۔ مگر منزل ایک تھی۔ ہر بچہ دو قطرے ہر بار۔
کریم اپنے دروازے کے سامنے کھڑا تھا اور نادیہ نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔ اسکی بڑی بھوری آنکھیں عائشہ اور اس نیلے ڈبے کا طواف کر رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے کریم کے چہرے پر اسکے ماضی کا انکار جھلکا مگر پھر اس نے سر جھٹک دیا۔ نادیہ کے مستقبل کا سوال تھا۔ وہ عائشہ کو اپنی طرف آتے دیکھ رہا تھا جس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ موجود تھی۔ یہ مسکراہٹ کریم کے فیصلے کو خراج تحسین پیش کررہی تھی۔ اس مسکراہٹ میں عائشہ پر اعتماد کرنے کا شکریہ بھی موجود تھا۔
وہاں گاؤں کے دوسرے سرے پر مراد اپنی کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔آج وہ اس مایوسی اور غم کو شکست دینے کا فیصلہ کر چکا تھا جو کئی دنوں سے اسکی دنیا کو اندھیرے میں دھکیل رہے تھے۔ تب اس نے عائشہ کی ایک ساتھی پولیو ورکر کو اپنے گھر کی طرف آتے دیکھا۔ اس صحت محافظ کی آنکھوں میں عزم نظر آرہا تھا۔ جب پولیو ورکر حسن کو ہاتھوں سے پکڑ کر کھڑا ہونے میں مدد کر رہی تھی، تب احساس ندامت اور احسان مندی کے ملے جلے جذبات سے وہ یہ منظر دیکھ رہا تھا۔اگرچہ اس کے بیٹے کے چہرے پر گرنے کا ہلکا سا خوف موجود تھا تاہم وہی پر کہیں کہیں بچگانہ تجسس بھی تھا۔ حسن کو پولیو کے دو قطرے ملے۔ اب وہ کبھی اپنی ٹانگوں پر چل نہیں سکتا تھا مگر یہ دو قطرے باقی بچوں کی صحت کے ضامن ضرور تھے۔
پولیو کے خلاف جنگ جاری ہے۔ ہر گھر پر پولیو ورکر کی دستک سے، ہر بچے کو دو قطرے دینے سے، اس وائرس کے خلاف معرکہ سر ہورہا ہے۔مستقبل روشن ہے۔ امید کی کرن موجود ہے۔ افراد، گروہ، اور ہر انسان کی اس جنگ میں شرکت دنیا کو ایک دن پولیو وائرس سے پاک کر دے گی۔
(نوٹ: یہ کہانی پاکستان میں پولیو کو ختم کرنے کی کوششوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی ایک خیالی تشکیل ہے۔ تاہم یہ کہانی حقیقی واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ کردار، واقعات اور وقت کی مخصوص تفصیلات کو تبدیل کیا گیا ہے۔)