واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایف 16 طیاروں کا سودا اب قابل عمل نہیں رہا، اس کی معیاد ختم ہو چکی ہے ۔کیپٹل ہل کا یہ اجلاس پاکستانی امریکی کانگریس کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا، جو ہر سال امریکی قانون سازوں کے سامنے پاکستان کا موقف پیش کرنے کے لیے یہ اجلاس طلب کرتا ہے۔مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے امریکی اسکولر مارون وین بام نے اجلاس کے دوران خبردار کیا کہ ملا اختر منصور کے خلاف ڈرون حملہ صرف شروعات تھی، بلوچستان میں مزید ڈرون حملے ہوسکتے ہیں اور یہ پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔تاہم پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان عبد الرحمٰن نظامی نے چار ملکی رابطہ گروپ کے اراکین پر زور دیا تھا وہ 21 مئی کے ڈرون حملے کے نتائج پر غور کے لیے اجلاس طلب کریں۔پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین کے نمائندوں پر مشتمل یہ گروپ گزشتہ سال افغان امن عمل کے حوالے سے تشکیل دیا گیا تھا۔اجلاس کے دوران جب امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار ڈیوڈ رینز سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو 8 ایف سولہ طیاروں کی فروخت کا سودا ختم ہوگیا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ فی الحال اس سودے کی معیاد ختم ہوگئی ہے، اس لیے اب یہ قابل عمل نہیں رہا۔امریکی کانگریس نے اوباما انتظامیہ کو، پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت سے روک دیا تھا، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد کے بڑے حصے کو بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کردیا تھا۔ڈیوڈ رینز کا مزید کہنا تھا کہ ہم چیلنجز کے باوجود پاکستان سے اہم تعلقات میں بہتری کے لیے پرعزم ہیں۔تاہم انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام، حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ جیسے دہشت گرد گروپوں کی موجودگی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کے حوالے سے امریکا کے تحفظات ہیں۔دریں اثناء امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان پر کالعدم تنظیموں لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس کارروائی نہ کرنے کا الزام لگایا ہے اور ایران کو دہشت گردی کی سب سے زیادہ سرپرستی کرنے والا ملک قرار دیا ۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے حوالے سے جاری سالانہ رپورٹ میں محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ 2015 میں دہشت گردی کے واقعات میں 2014 کی نسبت 13 فیصد کمی دیکھی گئی لیکن اس کے خطرے میں کمی نہیں آئی ۔ امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ کے مطابق عراق اور شام میں دولتِ اسلامیہ کے زیرِ قبضہ علاقوں میں کمی آئی لیکن دنیا بھر میں دہشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ اب بھی اسی تنظیم سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا اب بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فرنٹ لائن بنا ہوا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی کارروائی سے القاعدہ کمزور ہوئی لیکن رپورٹ کے مطابق ’افغانستان میں کئی حملے پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے کیے گئے ۔‘ 2015 میں پاکستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی لیکن سکولوں اور دوسرے ایسے اہداف کو شدت پسندوں نے نشانہ بنانا جاری رکھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیمرا نے کالعدم لشکر طیبہ سے منسلک دو تنظیموں کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی لیکن حکومت نے ان کے چندہ جمع کرنے کی کارروائی پر کوئی روک تھام نہیں لگائی۔رپورٹ کے مطابق ’لشکر طیبہ اور جیش محمد دونوں ہی پاکستان میں سرگرم ہیں، تربیت دے رہے ہیں اور پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی ہوئی لیکن افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مطلوبہ کارروائی نہیں کی گئی۔ پاکستان نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو بات چیت کے لیے راضی کرنے کی کوششوں میں مدد کی ۔ رپورٹ میں بنگلہ دیش میں بھی دہشت گردی کے معاملات میں تیزی ریکارڈ کی گئی اور وہاں القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ دونوں ہی نے غیر ملکیوں، اقلیتوں اور سیکولر بلاگروں پر حملوں کی ذمہ داری لی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جوہری معاملات پر بین الاقوامی کمیونٹی کے ساتھ معاہدہ ضرور کیا ہے لیکن اس نے حزب اللہ اور دوسرے شدت پسند تنظیموں کو مالی مدد اور تربیت دینا جاری رکھا ہے۔