میرا پسندیدہ مشہور کالم نگار محترم سلیم صافی نے مسلح افواج کے مئو قر سربراہ کی کچھ بات چیت اور اہداف پر قلم نازی کی تھی اور اپنی تحریرات میں انہوںنے سالار قوم کے اہداف کی بھی نشاندہی کی تھی اور ان سے منسوب جو کچھ صافی صاحب نے سپردقلم کیا تھا ان سے عیاںتھا کہ حالیہ سپاہ سالار بھی ایک جذبہ اور ذہنیت رکھتے ہیں اور حقیقتاً اس کاحق اوراس پر فرض بھی ہے کہ جس ملک کی حفاطت اور نگہبانی کی انہیں ذمہ داری ملی ہے وہ وہ بھی اس ملک کی خیر خواہی میں سو زو گدازکی حالت میں ہوں ۔ان کے فراموا ت بحوالہ صافی صاحب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ گزشتہ ادوار زمانہ ہمیں کہاں تک لے جاچکے ہیں۔
Posts By: مولانا عبدالسلام عارف
یہ مایوسی بھی کفرہے
پاکستان سے پہلے بلوچ خطہ کے دیگر آزاد اقوام کے ساتھ انگریزوں کا رویہ یہی ہو اکرتا تھا جو آجکل ہے یعنی جھوٹی تسلی، مگر مچھ کے آنسو اور بے جان وعدے، البتہ یہ سب کچھ رعب و لالچ کے پردے میں ۔
’’سلگتا بلوچستان ‘‘کے بارے میں
عزیز سنگھور کی تحریریں جاندار بھی ہیں اور جانبدار بھی مگر حقائق کی جانبداری اور مظلوموں کے حمایت مں حال ہی ان کی مضامین پر مشتمل ایک کتاب ’’سلگتا بلوچستان ‘‘شائع ہوئی ہے۔ بلوچستان کی حقیقی تصویر اور صورت حال کتاب میں مذکورہ ہے۔ کتاب کی ابتدائی مضامین سے لے کر اشاعت تک اہم اور بنیادی کردار بلوچستان کے مشہور پسندیدہ جریدہ‘‘ روزنامہ آزادی‘‘ کی ہے کہ جس کی لانچنگ پیڈ سے یہ حقائق لانچ ہو کر بلوچستان کی حاکمیت اور حاکم و محکوم کی حالت و حیثیت کو متلاطم کر چکے ہیں ۔
آن نہ من باشم کہ ۔۔ اور بلوچ کا ملا
شیخ سعدی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب گلستان میں ایک دلچسپ و چشم کشا قصہ نقل فرمایا ہے جو ایک بادشاہ کے اولاد اور ان کے شہزادوں سے متعلق ہے ۔اس بادشاہ کے متعدد اولاد نرینہ ہیں جو قد آور ،خوبرو اور تنو مند ہیں مگر ان میں ایک بچہ کو تاہ قد اور بقیہ کے نسبت بد صورت ہے نیز چالاک اور بظاہر ہوشیار نہیں ہے اس لیے بادشاہ کا اس کی طرف کوئی التفات نہیں تھا اور بادشاہ زادوں میں اس کی حالت وحیثیت ایک عضو معطل کی طرح ہے۔ شاہی محل اور بادشاہ کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے جبکہ دیگر شاہزادگان نازونعم میں پل رہے ہیں بڑھ رہے ہیں اور ہر طرح کے وسائل عشرت سے مالا مال ہیں ۔
پاکستان کو حق دو
مندرجہ بالا جملہ آج کل اس حد تک عام و خاص کی زبان پر ہے کہ گویا یہاں سب کے حقوق مارے گئے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ یہ اندازہ غلط بھی نہ ہو، کسی کو اس کا حق نہ دینا یا حق کے حقیقی حصہ سے کم دینا بھی حق تلفی ہے، اسی طرح کسی کو اس کی حیثیت اور حصہ سے زیادہ دینا بھی حق تلفی ہے۔ یہ نعرہ اب ایک نعرہ نہیں اظہار غم و الم کا نعرہ بن چکا ہے جو ملک نیک مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ،شاید اس کی خمیر میں کچھ پلید مٹی شامل ہوگئی تھی اس لئے پون صدی عمر پانے کے باوجود پرنالہ اپنی جگہ جوں کا توں بر قرار ہے ۔
قہر درویش اور ریکی کا سجدہ
جام کمال خان صاحب کو فی الحال سابق وزیراعلیٰ بنانے کیلئے عبدالقدوس بزنجوکو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کر دئیے گئے ۔یہ دونوں حضرات ایک تصویر کے دو رخ ہیں اور فی الحال ایک چھتری کے نیچے ایک دوسرے سے مختلف جہت کیے ہوئے تشریف فرما ہیں ۔اس میدان میں خاندانی طور جام صاحب بہت سینئر ہیں،قدس بزنجو اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یقیناً اس میدان میں ایک نام بن جائیں گے۔
اور لاشیں جیت گئیں
یوں تو ملک میں ہر چیز ہے اختیار ہے اعتماد ہے احساس ہے قیامت ہے عوام ہے خواص ہے دوست ہے با شعور طبقہ ہے لیکن کیا یہ ہیں ؟ اگر ہیں تو وہ معصوم لاشوں کو کئی دن پیوند زمین پر انتظار کیوں کرنا پڑا؟
کیا حقائق اور حالات ہم آ ہنگ ہیں؟
پون صدی تک پہنچتے پہنچتے ہمارے اسٹیبلشمنٹ کی نفسیات میں یہ بات مسلم رہی کہ پاکستان کو اگر عوام کے ہاتھوں میں دیا جائے تو پتہ نہیں اس کاکوئی انجام ہوگا، یہی احساس سبب بن گیا ہے کہ عوام الناس یہی سمجھیں کہ اس ملک کے حال و مستقبل میں اس کا کوئی حصہ نہیں… Read more »
ملنگانہ نبض شناسی
پاکستان کی روایتی سیاست لفاظی کی حد تک ہمیشہ انقلابی دکھائی دیتا ہے لیکن عملی میدان میں اترنے کے بعد لفظ اور لب ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاست میں بلوچستان کا نام تو ہے لیکن اختیار و اقتدار میں اس کا اول تو کوئی حصہ نہیں اور اگر ہے تو برائے نام ‘ یہی سبب ہے کہ ہمیشہ بلوچستان میں ہر چیز ہر وقت نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں گروی ہے ۔اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو کہ ملک کے پورے آدھے حصے کو چھوٹا صوبہ کہا جائے، پھر بجٹ اورترقیاتی منصوبوں میں اس کی جغرافیائی وسعت کو حساب میں نہ لایا جائے ۔