سنگت ظفر بلوچ بلوچستان کی محرومیوں کی بابت وقتاً فوقتاً لکھنے کی کوشش کرتاہوں۔ اسی امید کے ساتھ کہ شاید کسی بے حس جاںمیں حرکت آجائے اور کسی مردہ ضمیر میں بیداری آجائے۔ یہ کوشش ہربار ناکام ہوتی ہے ۔میری تحریروں کامحور بلوچستان ہوتا ہے کیونکہ میں یہاں سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے وجود… Read more »
Posts By: سنگت ظفر بلوچ
منشیات معاشرے کیلئے باعث تشویش ہے
منشیات ہمارے نسلوں تک میں پھیل چکی ہے۔ جوان، بچے، بوڑھے اب حتیٰ کہ خواتین بھی اس لت میں تیزی سے مبتلا ہورہی ہیں۔کافی تعداد میں گٹر ندی نالوں میں پٹے اور گندے کپڑے پہنے منشیات کے عادی لوگ اس ٹھٹھرتی سردی میں مدہوش پڑے ہوتے ہیں۔ ان میل کچیل سے بھرپور لوگوں کے علاوہ اب ہمارے سفیدپوش تازہ دم خوبرو نوجوان بھی بڑی تعداد میں اس لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
سماج کیلئے سیاسی فکر
زمانہ قدیم میں سیاسی رہنماء سماج کے فلاح و بہبودکے لیے ہروقت فکر مند رہتے۔ ذات پات، نسل، قوم ،تہذیب ،مذہب سب سے بالاتر ہو کر سیاست انسانیت کیلئے درد رکھتا جس میں تمام انسانیت کا سکھ شامل ہوتا تھا۔لیکن اب اگر ہمارے سیاسی معاشرے کو پرکھا جائے تو سماج کے جذبات سے کھیل کر انکے احساسات کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ سیاست بطور عبادت کوئی ترجیح نہیں رہی بلکہ اب ذریعہ معاش بن چکا ہے۔ آج اس سماج کی بدحالیوں کے پیچھے سیاسی قیادت مفادات حاصل کررہی ہے ۔ لوگ بھوک افلاس غربت اور بیروزگاری سمیت دیگر گْھٹن سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اور سیاستدان عوام کی بے بسی پر تماشائی بن کر گِدھ کی طرح انہیںنوچنے کے لیے تیار ہیں۔
اقتدار کی جنگ اور اسلام آباد ،راولپنڈی کے فیصلے
بلوچستان میں طبل جنگ بج چکا ہے، اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ حکومتی باغی اراکین اور وزیراعلیٰ جام کمال گروپ میں سیاسی تصادم سامنے آنے کے بعد سے اقتدار کی جنگ میں شدت آچکی ہے۔ مرکزی شہر اقتدار اسلام آباد میں اس وقت بلوچستان کے تقدیر کے فیصلے ہورہے ہیں۔ ناراض اراکین و جام کمال گروپ دونوں اسلام آباد کا طواف کرکے اقتدار اقتدار کی سدائیں بلند کرتے رہے۔ دونوں جانب آس اسلام آباد پر لگی ہوئی ہے اب اسلام آباد کا فیصلہ 20 اکتوبر کو متوقع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس کے حق میں جاتا ہے اور اسلام آباد والے کس پر مہربان ہوتے ہیں۔
شہر اقتدار میں اہل اقتدار سے انصاف کا مطالبہ
بلوچستان میں آئے روز اپنی نوعیت سے بڑھ کر ایک نیا سانحہ رونما ہوتا ہے۔ ہر نئی دن بلوچستان کیلئے غم سے بھرپور گزرتا ہے۔ آئے روز بزرگ، جوان، بچے اور خواتین کو موت کی منہ میں دھکیلا جاتا ہے۔ ہر دن پرآشوب خون سے لت پت ہوتا ہے۔ موت کا رقص بلوچستان کے شہر وں،گلی کوچوں اور دیہاتوں میں جاری ہے۔ اندھی سیدھی گولیوں اور معلوم نامعلوم افراد کے ہاتھوں روزانہ نہتے معصوم بچے خواتین نوجوان قتل ہورہے ہیں۔ اہل بلوچستان اپنے تحفظ اور بقاء کیلئے چیخ چیخ کر پکار رہے ہوتے ہیں مگر سنگ دل حکمرانوں کے دل میں ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ حکمران اپنے مفادات اور مراعات کی جنگ میں اس قدر مست و مگن ہیں کہ انہیں اب لاشوں سے بھی بلیک میلنگ کی بو آتی ہے۔
گوادر کے بقاء کی جنگ ہدایت الرحمن بلوچ کے سنگ
بلوچستان کی ساحلی پٹی گوادر سے اٹھنے والی آواز ساری دنیا کو سنائی دی مگر پاکستان کے بے حس حکمرانوں کو یہ سنائی نہیں دی۔گوادر وہی شہر ہے جہاں سے پاکستان کی ترقی کی ڈھونگ رچائی جاتی ہے وہی شہر جو کہ سی پیک کا مرکز کہلاتا ہے۔ آج کل تو حکمران اسے سنگاپور اور لِٹل پیرس کے نام سے موسوم کرتے نہیں تکتے ۔ یہ سب بے سروپا دعوے گوادر کی وجہ سے ہیں اور گوادر پوری دنیا میں سی پیک کی وجہ سے اہمیت حاصل کر چکا ہے۔