7 جنوری 2023 کی شام کو ایک پیغام بذریعہ دوست موصول ہوا کہ ڈپٹی کمشنر آواران نے ساتویں ڈیجیٹل خانہ شماری کے پہلے روز اساتذہ کی غیرحاضری پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا ہے مزید غیرحاضری کی صورت میں اساتذہ کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی اس سلسلے… Read more »
Posts By: شبیر رخشانی
ایک چھوٹی سی جدوجہد کی کہانی (آخری حصہ)
میں آواران میں تھا دیگر دوستوں میں اسد عطا، یاسر ناصر، اکرم اکبر، تنویر میروانی، وسیم میروانی، حسن میروانی، نبیل ارمان، جلیل معراج، شکیل بلوچ، سالم بلوچ اور دیگر احباب نے ہمیں آواران میں جوائن کیا تھا۔ پروین ناز کراچی میں جبکہ عابد میر، نواز فتح اور نجیب اللہ سرپرہ کوئٹہ میں پروگرام کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ اسٹوڈنٹس کی ایک ٹیم جو کراچی، کوئٹہ اور اوتھل میں مقیم تھی سب سے رابطہ جاری تھا۔ ڈگری کالج آواران کے اسٹوڈنٹس کی بڑی تعداد بطور رضاکار ہمارے ساتھ شامل ہو چکی تھی۔ پروفیسر شکیل بلوچ اور اس کا اسٹاف بھی ہمارے ساتھ تھاہم پروگرام کو ترتیب دینے اور منیجمنٹ کی تیاریاں کر رہے تھے۔
ایک چھوٹی سے جدوجہد کی کہانی (حصہ ششم)
آواران کا سفر تمام کرکے ایک بار پھر کوئٹہ جاگزین ہو ئے۔ اب کے بار ایک نیا خاکہ ذہن میں آچکا تھا،عابد میر کے ساتھ نشست تھی ان کی جانب سے تجویز یہ سامنے آئی کہ آواران میں کتابوں کا کوئی میلہ کیوں نہیں رکھتے،دو چار دوست وہاں جائیں گے ایک دن گزار کر واپس آجائیں گے۔ خیال آتے ہی ہم اس پر کام شروع کر چکے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ چار سال قبل عابد میر اور ہیبتان کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ایک آن لائن نیوز ویب سائیٹ کا خیال آیا تھا۔ بعد میں وہ خیال حقیقت میں بدل گئی تھی اور ہم ”حال حوال“ ویب سائیٹ کو لانچ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
ایک چھوٹی سے جدوجہد کی کہانی (حصہ پنجم)
میں نے آواران کے مختلف سکولوں کی فہرست بنا کر ان کا دورہ کیا جن میں مڈل سکول بیدی، گرلز ہائی سکول بیدی، گرلز مڈل سکول سوراب، گرلز ہائی سکول آواران ٹاؤن، بوائز پرائمری سکول سوراب، بوائز ہائی سکول کہن زیلگ، پرائمری سکول انامی بھینٹ، بوائز مڈل سکول ماشی، گرلز سکول کہن زیلگ اور ایجوکیشن سینٹرز شامل تھے۔ وہاں کے اساتذہ سے ملاقاتیں کیں انہیں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا، ان کے مسائل سنے، بچے اور بچیوں کو سنا۔ سکولوں کو مسائل کا آماجگاہ پایا۔ اسپورٹس گراؤنڈ، پانی، واش رومز اور دیگر مسائل کا سامنا کرتھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو بجٹ ان سکولوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے وہ جاتا کہاں ہے۔ صوبائی سطح پر بیٹھے ذمہ داران اور پالیسی سازوں کو کیا گراؤنڈ کی اس صورتحال کی خبر ہے جس صورتحال کا سامنا یہاں کے بچے اور اساتذہ کر رہے ہیں۔ یہ خاکہ اوجھل ہے۔ سکولوں تک رسائی ہم بائیک کے ذریعے کرتے رہے،بائیک کی یہ سہولت ہم خیال دوستوں کی مرہونِ منت تھی۔
ایک چھوٹی سے جدوجہد کی کہانی (حصہ سوم)
ہمیں اخلاقی فتح حاصل ہو چکی تھی۔ جب ضلعی ایجوکیشن آفیسر آواران کو سب دروازے بند ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگے اور ان پر گھیرا تنگ ہونے لگا تو انہوں نے وہی کیا جو عموماً میدانِ جنگ میں ایک بزدل سپاہی کرتا ہے۔ ہماری مہم کو ادارہ دشمنی، سلامتی دشمنی قرار دے کر ایک لیٹر نمبر1395-1405/Awnبنام سیکرٹری بجھوا کر ہمیں غداری کا مرتکب قرار دیا۔ اور مذکورہ لیٹر کی کاپی سیکورٹی اداروں کو ارسال کرکے اپنے مذموم عزائم کا پہلی بار کھل کراظہا کیا۔اس سے قبل وہ بہت سارے کندھے استعمال کرکے ناکامی کا شکار ہو چکے تھے۔
ایک چھوٹی سے جدوجہد کی کہانی (حصہ دوئم)
جب آپ پہلا قدم اٹھاتے ہیں تو آپ کو خبر نہیں ہوتی کہ قدم آپ کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، لیکن جوں جوں قدم آگے بڑھاتے جائیں گے تو راستے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنا آپ بند کرتے ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک نئی جنگ کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں ایک ایسی جنگ جس کی شروعات اپنے آپ ہوتی ہے۔ پہلی شکست اپنی انا کودینی ہوتی ہے سومیں اس انا کو شکست دینے کے لیے اپنے دماغ کو آمادہ کر چکا تھا۔ باتیں چاروں جانب سے سنائی دے رہی تھیں، میدان ِ جنگ میں کئی مہروں نے سامنے آنا تھا۔بہت کچھ کھونے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا تھا۔ وہ رشتے ناطے جن کی ڈوری مضبوطی سے باندھتے چلے آرہا تھا ان رشتوں کی ڈوری ابھی سے کمزور ہوتا ہوا محسوس کر پا رہا تھا۔
ایک چھوٹی سے جدوجہد کی کہانی
ہم سب خواب ہی تو دیکھتے ہیں ان خوابوں کی تکمیل میں جھٹ جاتے ہیں کچھ خواب تکمیل پاتے ہیں تو بہت سارے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ ان خوابوں کے آگے بند باندھے جاتے ہیں آدمی ان بندات کو توڑنے میں لگ جاتا ہے۔ آپ ایک بند توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایک اور مضبوط بند آپ کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ آپ مزاحمت کریں یا ہتھیار ڈال دیں یہ آپ ہی پر منحصر ہے۔
سکول سے محروم گورک ہل کے بچے کس طرح تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟
سطح سمندر سے 5688 فٹ کی بلندی پر واقع گورک ہل جسے بلوچی زبان میں گرک کوہ کہا جاتا ہے۔ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔ بکھری ہوئی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے مگر یہ علاقہ دور جدید میں بھی سکول کی سہولت سے محروم ہے۔ سکول سے محروم علاقے کے بچوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنے کے لیے گل محمد بلوچ رضاکارانہ بنیادوں پر بطور استاد خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ عمارت کی عدم دستیابی کے باعث انہوں نے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر نہ صرف ٹینٹ اور ٹاٹ کا انتظام کروایا بلکہ بچوں کے لیے بستہ اور کاپی کتابوں کا بندوبست بھی کیا۔ یوں اس کی جدوجہد رنگ لے آئی جہاں تعلیم کا تصور ہی نہیں تھا اب وہاں تدریس کا آغاز ہو چکا ہے۔
ہم تعلیمی مہم چلانے پر مجبور کیوں ہوئے؟
میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں تو میرے سامنے گاؤں کی وہی تصویر آجاتی ہے جو میرے بچپن میں ہوا کرتا تھا، سوالات میرے گرد ڈیرہ ڈالتے ہیں میرے گاؤں کے بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم کیوں ہیں؟ کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہوں مگر جواب تلاش نہیں کرپاتا۔نہ ہی گاؤں کے مرد پڑھے لکھے اور نہ ہی خواتین۔ ایک دن ایک خاتون سے سامنا ہوا،بغل میں بیمار بچہ مسلسل روتا چلا جا رہا تھا،سوال ان سے یہی تھا کہ ڈاکٹر کو دکھایا تو کہنے لگیں ہاں دکھایا تو ضرور مگر ڈاکٹر نے کہا کہ کچھ نہیں۔
کیا بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین بند ہونے جا رہا ہے؟
گزشتہ روز ایک محفل میں باتوں باتوں میں ایک دوست یہ کہہ گئے کہ بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین بند ہونے جا رہا ہے۔ شاید یہ خبر دوستوں کے لیے انہونی نہیں تھی مگر یہ خبر سن کر ذہن کو دھچکا سا لگا۔ بے اختیار زبان سے نکل آیا ”کیا؟“ دوست میری طرف متوجہ ہوئے”کیا ہوا بھائی! انتقال کی خبر تھوڑی سنا دی کہ اس پر ملال ہوا جائے۔“ میرے لیے یہ ملال کی خبر ہو نہ ہو مگر میں جانتا ہوں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں بسنے والے ان افراد کے لیے یہ ملال والی بات ضرور ہوگی جن کے لیے خبروں کا واحد وسیلہ تاحال بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین ہی ہے۔