سورج ڈھل چکا تھا، اور ہم بیلہ سے آواران کے لیے رخت سفر باندھ چکے تھے۔ سڑک بھی خستہ حال۔ یہ احساس تنگ کرنے لگا کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان علاقائی نمائندوں کو یہ تکلیف دہ صورتحال نظر کیوں نہیں آتی۔ جوں جوں آگے بڑھے تو ہم نے بیلہ آواران روڈ کو بارونق پایا۔ ہوٹل کھلے ہوئے ملے۔ یہ سب زامیاد گاڑیوں کی آمدورفت اور تیل کے کاروبار کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔ وہ روٹ جس پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ویرانی کا راج رہا اس خاموشی کو توڑنے کے لیے ایرانی زامیاد گاڑیوں کے کاروان اپنا کردار نبھا رہے تھے۔
Posts By: شبیر رخشانی
انسانی حقوق کا عالمی دن اور بلوچستان کے بچے
انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیشہ شہروں کی سطح پر منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرکے اس میں اکثر و بیشتر وہی چہرے، وہی بولیاں اور وہی قصے کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں ماضی میں دیکھتے، سنتے اور دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ منتظر نگاہیں جن کی راہیں تک رہی ہیں ہمیشہ سے نظرانداز ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ وہی نگاہیں جن سے ان کے خواب چھینے جا چکے ہیں ان خوابوں کو دوبارہ پانے کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن امیدوں کا جھونکا بن کر آجاتا ہے پھر رفوچکر ہو کر واپس چلا جاتا ہے اور ایک سال کا وقفہ مکمل کرکے دوبارہ خواب دکھانے آجاتا ہے۔
اساتذہ کے مشکلات کیا ہیں؟
ہم نے اب تک کی سروے میں بلوچستان کا جو تعلیمی خاکہ پیش کیا ہے اس میں نہ صرف طلبا و طالبات کو مشکلات سے دوچار پایا بلکہ حاضر باش اساتذہ کو بھی مشکلات میں گھرا پایا۔ مگر نہ ہی طلبہ کے مسائل کو زیر غور لایا جاتا ہے اور نہ ہی اساتذہ کے، بلکہ ان مسائل کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہم نے تعلیمی مہم سے متعلق جو ڈیمانڈ ذمہ داران کے سامنے پیش کیے ان میں ٹیچرز کو درپیش مسائل اور ان کا حل بھی شامل تھا۔
تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر ڈھونگ
معاشرے میں جھوٹ نے اپنا وہ مقام بنا لیا ہے کہ سچ کان پکڑ کر رہ جائے۔ نفسیاتی اجزا ء کو ملا کر ایسے ایسے پراڈکٹ تیار کیے جاتے ہیں کہ آدمی دھنگ رہ جائے اور جھوٹ کو سچ ماننے پر مجبور ہو جائے۔ زمینی حقائقکوچھپانے کے لیے مقتدر حلقوں نے جو فارمولہ تیار کیا ہے اس سے المناکیوں، مجبوریوں، لاچاریوں کے بھنور میں پھنسا بلوچستان تعلیم کے میدان میں اپنی ناکامی کا اعتراف تو نہیں کر پا رہا مگر مشاہداتی نگاہوں سے جال جو بچھایا گیا ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو کہانی کھل کر سامنے آتی ہے۔
شال کی بے رنگ فضا میں مصوری کی ہلکی سی جھلک
لوگ کہتے ہیں کہ شال کبھی ایسے نہیں تھا اب بہت بدل چکا ہے۔ راہ چلتے لوگوں کے چہروں کا تاثرات پڑھنے کی کوشش کریں تو عنوانات سے خالی نظر آتے ہیں۔سوچ کی گھنٹی ٹھن ٹھن کرنے لگتی ہے شال جو کبھی فن سے آشنا تھا اب ایک ناآشنائی کی فضا در آئی ہے۔ نہ ہی تفریحی مقامات، نہ ہی محفلوں کا تصور۔ اجنبی پن لمحوں میں آدمی کو گھیر لیتی ہے۔ دو چار دوست ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں تو بھی سب اپنے اپنے خیالوں میں گم۔ ایک مصور نے پوچھا تھا کہ وہ کہانی کار کہاں ہیں جن کی جادوئی جملوں کو پڑھ کر تصورات جنم لیا کرتے تھے۔ جواباً کہا کہ کہانی کار لاپتہ ہے اور کہانی گمشدہ۔۔
اک حادثہ اور سہی
خبر کیا ہے؟ صحافتی دانشوروں نے اس کی بے شمار تعریفیں کی ہیں پھر بھی حتمی نتیجے پر پہنچ نہیں پائے اورنہ ہی خبر کا احاطہ کر پائے۔ ایک تعریف جو مشہور ہے ”کتا آدمی کو کاٹ لے خبر نہیں بنتی لیکن اگر آدمی کتے کو کاٹ لے تو وہ خبر ہوتی ہے“۔ اب بھلا آدمی کتے کو کیوں کاٹے۔ اس خبر کی تلاش میں نہ جانے کتنے صحافیوں نے سر کھپائے ایسی خبریں انہیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ جس نے یہ مشہور مقولہ بیان کیا تھا وہ خبر کا مدعا بیان کرنے کے لیے کافی تھا خبر وہ ہو جو چونکا دے اس میں انوکھا اور نیا پن ہو۔
یونیورسٹی واقعے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت
میرے گاؤں میں ڈاکٹر تو اپنی جگہ لیڈی ہیلتھ وزٹرز تک دستیاب نہیں۔دورانِ زچگی ایک حاملہ خاتون اپنی چیک اپ نہیں کرا سکتی، نہ ہی کوئی ٹرینڈ دائی ہے جو ڈلیوری کیسز کو ڈیل کر سکے۔ ایسی صورتحال کا سامنا نہ صرف میرا گاؤں بلکہ دیگر قریبی گاؤں بھی کرر ہے ہیں۔ بسا اوقات سوچتا ہوں کہ حالات اپنے آپ تبدیل نہیں ہوتے۔ حالات کو تبدیل کرنے میں ایک وژن کارفرما ہوتا ہے۔
وہ بیٹھک جو کبھی سکول ہوا کرتا تھا
کچے کمرے کے سامنے کھڑا تصورات ہی تصورات میں اپنے آپ کو اس مقام پر پا رہا ہوں جہاں کبھی بچپن ہوا کرتا تھا، بچپن سے جڑی یادیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ زمانہ اور وہ یادیں سب کچھ یا تو یہ کچا کمرہ اپنے اندر سمیٹ چکا ہے یا میرے حافظے میں موجود مجھے تنگ کر رہے ہیں یا ان مکینوں کے حوالے ہو چکے ہیں جو اسے الوداع کہہ گئے ہیں۔ خستہ حال ڈھانچہ، ٹوٹے دروازے اور کھڑکی جہاں سے کبھی تر و تازہ ہو اسکول کے مکینوں کو گھیرتا تھا، مٹی اور گھارے سے بند کر کے ہوا کا راستہ موڑا جا چکا ہے۔
تربت یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھایا نہیں جاتا
بات مکران کی ہو رہی تھی دورانِ گفتگو ذکر فلسفے کا آیا تو ایک دوست نے کہا کہ تربت یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھایا نہیں جاتا۔ یہ فقرہ ہم سب کو چونکا دینے والی تھی۔ بات ہو رہی ہو مکران کی اور تربت یونیورسٹی فلسفے سے آزاد ہو۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے تربت یونیورسٹی سے وابستہ ایک اور دوست سے جاننا چاہا تو ہنس کر کہہ گئے کہ کون پسند کرتا ہے کہ اداروں کے اندر یا اداروں کے باہر سوال اٹھنے لگیں۔
پی پی ایچ آئی سے این آئی ایچ تک کا سفر
دنیا میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو آنکھوں میں خواب سجاکر گھر سے نکلتے ہیں خوابوں کی تکمیل تک بس جٹے رہتے ہیں بسا اوقات ایسا ہو تا ہے خوابوں کو تکمیل کے مراحل سے گزار کر وہ خود تکلیف اور دشواریوں سے دوچارہوتے ہیں پھر وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ خواب کہیں چکنا چور نہ ہو جائیں۔ مگر وہ ہمت کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ راستے کے کانٹوں کو ہٹاتے ہوئے منزل پا لیتے ہیں۔ پھر وہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔