جب سے پیدا ہوا ہوں۔ ریڈیو کی آواز سماعتوں کا حصہ رہا ہے،اور کیوں نہ ہو جب گھر میں ریڈیو سننے کا رواج ہو۔ گھر میں ریڈیو سننے کا یہ رواج کب شروع ہوا تھا یہ نہیں معلوم۔۔
Posts By: شبیر رخشانی
”قومی“ میڈیا اور بلوچستان کا گمشدہ مؤقف
کوئٹہ پریس کلب کی کینٹین میں بیٹھا اس وقت میرے سامنے اخبارات کی ڈھیر لگی ہے۔ خبروں کی سرخیوں پر نظر دوڑاتا ہوں سب کچھ حسبِ معمول روایتی انداز میں نظر آتا ہے۔ ”روزنامہ جنگ کی صفحات پلٹنا شروع کرتا ہوں اہم خبروں پر نظر جما لیتا ہوں تو اس میں حکومتی و سیاسی بیانات ہی نظر آتے ہیں۔ خبروں پر سرسری نگاہ دوڑانے کے بعد اگلا صفحہ پلٹتا ہوں۔ حسبِ معمول وہی روایتی خبریں، بیانات اور تصویریں ہیں جو آئے روز نگاہوں سے دوچار ہوتی ہیں۔
سید ریفرنس لائبریری افسردہ تھا
بیٹھک میں محفل جمی ہوئی تھی ایک شخص محفل کا مرکز و محور تھا۔ محفل میں بیٹھے دیگرافراد اسے واجہ کے نام سے پکار رہے تھے۔ محفل ختم ہوئی۔ بندہ اٹھ کر چلا گیا۔ان کے چلے جانے کے بعد محفل کے شرکا ء سے دریافت کیا کہ ”واجہ“ کون تھے؟ تو ایک نے بتایا کہ صبا دشتیاری صاحب تھے، ریفرنس لائبریری کے لیے چندہ کرنے آئے ہیں۔
ہیلتھ ایجوکیشن کیوں ضروری ہے؟
گزشتہ شب سے ناسازی طبیعت کا شکار ہوں۔ ابھی تک نتیجے پہ نہیں پہنچ پا رہا کہ اس غم جاناں کا آخر علاج کیا ہے۔ حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے گومگو صورتحال کاشکار ہوں کہ بخار گلے کی خرابی کے باعث ہے یا پیٹ کے یا کوئی تیسرا مرض وارد ہو چکا ہے جس سے انجان ہوں۔ وقت اسی کشمکش میں گزار تا چلا جا رہا ہوں کہ دوائیاں پیٹ کی لوں، گلے کی یا بخار کی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو بیک وقت تینوں کی دوائیاں لینی شروع کرتا ہوں۔ خودساختہ علاج سے ہوتا یہ ہے کہ مزید دو بیماریوں سردرد اور ہڈی درد کا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر یہی سوچتا چلا جاتا ہوں کہ آخر اس سب کا انجام کارکیا ہوگا۔۔
بلوچستان میں قومی اداروں کا کھوکھلا ڈھانچہ
کوئٹہ کے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے نظر ایک تیر نما سائن بورڈ پر پڑتا ہے بورڈ پر ”PEMRA“ لکھا ہوا نظر آتا ہے دوست سے پوچھتا ہوں یہ ادارہ صوبے میں کرتا کیا ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے پھر بولنے لگتا ہے”سمجھ تو مجھے بھی نہیں آتا“۔ بہرکیف کام ہو بھی یا نہ ہو ہمیں اب تک اس سے پالا نہیں پڑا۔ اتنا تو ضرور سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کے احکامات سے ہماری روز مرہ زندگی یا یوں کہیے کہ بلوچستان کا حقیقی عکس اور شناخت متاثر ضرور ہوا ہے۔
وہ ساتھی جو چلے گئے
بلوچستان جہاں امن و خوشحالی ایک خواب ہے۔ اس خواب کو جن لوگوں نے آنکھوں میں سجائے رکھا، جس کے لیے آواز بلند کی، جسے زیر تحریر لاتے رہے۔تختہ دار پر لٹکائے گئے۔ گولیوں سے چھلنی کیے گئے۔ بم دھماکوں کی زد میں آئے۔ نہ صحافی محفوظ رہا، نہ شاعر، نہ استاد، نہ فنکار۔ صحافت کا شعبہ متاثر ہونا ہی ہونا تھا سو وہ صحافی جو اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے اس کا خاکہ پیش کرتے رہے وہ آواز یں ایک ایک کرکے خاموش کرائی گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان صحافت کا بنجر زمین ثابت ہوا۔
جشنِ آزادی اور عیدِ قربانی مبارک ہو
14اگست آیا اور چلا گیا۔ عید آئی اور چلی گئی۔ جانے والوں کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ جانے والوں کی یادیں جاتے جاتے ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔ اب سوچتا ہوں جانے والوں کی یاد میں وہ کون کون سے لمحات کرید کر آپ کے سامنے لاؤں جن کے ساتھ خوشگوار لمحات جڑے ہوئے ہیں جنہیں یاد کرکے محظوظ ہوا جائے اور انہیں بیان کیا جائے۔
اتنا سب کچھ ہضم کیسے کر سکتے ہیں
دن بھر انٹرنیٹ کی دنیا سے جڑے رہنے کے دوران آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ معلومات کا کون کون سا خزانہ آپ نے چھان مارا ہے اور وہ کون کون سے ذراءع تھے جنہیں نظر انداز کر گئے،انٹر نیٹ کی دنیا ہی ایسی ہے ۔ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا یہ کہ جو کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے کچھ سے جانکاری اور کچھ سے انجان بن جاتے ہیں اپنی فطرت کے حساب سے وہ سب کچھ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔
ما چیا نبشتہ کن اَنت؟ (گڈی بہر)
ما سوشل میڈیا ءِ سر ءَ چنچو وھد فضول ءَ گوازینیں۔ اگاں وھدءِ حساب ءَ بکن آں تو مارءَ وت اپسوس بیت کہ ما وتی وھد چنچوک پہ مفت گوازینتگ۔ ما بائدیں وتی اے بہانگ ءَ ھلاس بکنیں کہ مئے کرءَ وھد نیست ما پمیشکہ نہ نبشتہ نہ کنیں۔ وھد ءَ وتی دست ءَ بکن وھد ترا دست کپیت۔
بلوچستان کا معاشی نظام زیر بحث نہیں آتا (3)
جام کمال نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریکوڈک کا کیس عالمی سطح پر چل رہا ہے قوی امکان ہے کہ ہم پر اربوں ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ رقم صوبے نے ادا کرنا ہے اور اس کا سارا بوجھ حکومتِ بلوچستان پر آئے گا۔ کتنی… Read more »