کوئٹہ جو کہ بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کہلاتا ہے اس میں ٹریفک کی صورت حال آج اس قدر بگڑچکی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا،پھر مزے کی بات یہ ہے کہ اس بارے ہمارے صوبائی حکمران یا اس سے وابستہ سرکاری افسران کی جانب سے ایسا کوئی بیان دیکھنے کو بھی نہیں مل رہا کہ حکمرانوں نے یا ہماری بیورو کریسی نے اس نازک صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے اقدامات کرنے کی ٹھان لی ہو۔ یقین جانیے کہ آج آپ کوئٹہ سے سریاب کے راستے سبی یا نوشکی مستونگ تک کا سفر کریں ان شہروں کے لئے آج کل دو سے ڈھائی گھنٹے بمشکل لگتے ہیں ان گھنٹوں میں 100کلو میٹر کا سفر طے کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔
Posts By: طارق بلوچ
بلوچستان کی خونی شاہراہیں
بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر گزشتہ چند سالوں کی متواترحادثات اور بیگناہ افراد کی اموات کی شرح کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قومی شاہرائیں دراصل صوبے کے لئے خونی شاہرائیں بن چکی ہیں۔ قومی شاہراہیں جن میں کوئٹہ تا کراچی‘ کوئٹہ تا لورالائی ملتان‘ کوئٹہ تا ژوب ڈیرہ اسماعیل خان‘ کوئٹہ تاسبی جیکب آباد اور کوئٹہ تاتفتان کی شاہرائیں سنگل ہونے کی وجہ سے خونی شاہرائیں کہلائی جارہی ہیں۔کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ٹریفک کی زیادتی کے باعث حادثات اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
”بلوچستان اور سندھ کے جزائر بارے آرڈیننس نیا پینڈوراباکس“
آخر کار بلی تھیلے سے باہر آگئی کے مصداق وفاق کی جانب سے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں کے جزائر بارے صدارتی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے ”پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کرکے صوبائی خودمختاری میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام کا مظاہرہ کرکے بلوچستان اور سندھ کی سیاسی جماعتوں سمیت یہاں کے عوام میں شدید بے چینی پیدا کرنے کا سبب پیدا کیا گیا۔ چونکہ یہ ساحلی علاقہ جات صوبوں کی ملکیت ہیں اس سے وفاق کا کوئی تعلق نہیں جبکہ ساحل سمندر سے اندرون سمندر 12ناٹیکل میل بھی صوبائی تصرف میں آتا ہے۔
ڈیرہ مراد جمالی کی حالت زار کب بدلے گی
ڈیرہ مراد جمالی سے گزرنے والی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اب تو اس کی مرمت بھی نہیں کی جارہی ہے لوگوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔شہر سے گزرنے والی سڑک پر ٹرالرز سمیت بڑی گاڑیوں کی آمدورفت سے شہری شدید ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں دن بھر دھول اڑتی رہتی ہے شہری پریشان حال ہیں کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ اللہ یار تک طویل سڑک کے دونوں اطراف دکانوں کی تعمیر سے اس سڑک ہر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہو رہی ہے بائی پاس بنانے کی شدید ضرورت ہے لیکن اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ علاقے کے عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی اور غفلت سے علاقے کے مسائل جو ں کے توں ہیں جاگیردارانہ ذہن رکھنے والے لوگ بھلا کیوں غریبوں کی اصلاح بارے سوچیں گے انہیں صرف اور صرف انتخابات کے دنوں میں علاقہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
بھاشا ڈیم کی تعمیر میں مقامی افراد کی ترجیح
قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے آبی وسائل کے اجلاس میں جو کہ چئیرمین نواب محمد یوسف تالپور کی صدارت میں اسلام آبادمیں منعقد ہوا جس میں دیامیر بھاشاڈیم کی تعمیر سے متعلق صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے حکام نے یقین دہانی کرائی کہ گلگت بلتستان کے رہائشی لوگوں کو دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کیاجائے گا۔ یہ خبر پڑھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی سرکاری اہلکار یا حکومتی عہدیدار کی جانب سے آج تک کوئی اعلان کرتے یا کہتے نہیں سنا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو ملک کی 74%طویل سڑکیں رکھنے والے صوبے کو اہمیت دیتے ہوئے۔
کراچی، کوئٹہ تا چمن ایکسپریس وے کی تعمیر اور نئی منطق؟
معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات اور سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باوجوہ کے اعلان کے مطابق وزیراعظم نے کراچی‘ کوئٹہ،چمن ایکسپریس وے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت 790کلو یٹر طویل یہ شاہراہ ”بناؤ، چلاؤ اور منتقل کرو“ کی پالیسی کے تحت تعمیر ہوگی۔منصوبے کی فزبیلٹی اور کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے عمل شروع ہوچکا ہے ان کے بقول بھاری ٹریفک اور بڑھتے ہوئے حادثات کی وجہ سے اس شاہراہ کی تعمیر ناگزیر ہے۔دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اس اہم منصوبے کی منظوری پر وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے اظہار تشکر کرتے ہوئے۔
”سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان“
”سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان“ کی دوسری قسط پیش خدمت ہے جس میں‘ میں نے سنڈیمن سول ہسپتال اور بولان میڈیکل کالج کا خصوصی ذکر کیا اور اپنی زندگی میں رونما ہونے والے تجربات کو قارئین کے ساتھ شئیر کرتے ہوئے صورت حال بارے بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح یہ ہسپتال”مقامی لوکل ڈاکٹر اور بیورو کریٹس“ کی نا لائقیوں اورمجرمانہ غفلت“ کے باعث اب یہ دونوں بڑے ہسپتال صرف اور صرف ”غریب“ لوگوں کے لئے مختص ہو کررہ گئے ہیں۔سنڈیمن سول ہسپتال اور بولان میڈیکل ہسپتال کے او پی ڈیز میں آپ کسی ڈاکٹر سے ملنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان
بلوچستان میں سرکاری شعبوں کے بارے میں بہت کچھ لکھاجا سکتاہے کیونکہ یہ سرکاری ادارے کرپشن اوربد انتظامی سے اس قدر تباہی کے دہانے پر پہنچادئیے گئے ہیں کہ اب ان کی حالت بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی۔سرکاری طورپر تعمیرات سے لے کر ادویات کی خریداری‘ سڑکوں کی پختگی سمیت ہر شعبہ پر نظر دوڑائیے تو برسوں کرپشن کے باعث تباہی و بربادی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ارباب اختیار صرف اور صرف اخبارات یا ٹیلی ویژن کی حد تک ”اچھا ہے اچھا ہے کررہے ہیں“ خود کو بری الذمہ قرار دے کر تمام گند کا ذمہ دار گزشتہ حکومتوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔
بلوچستان میں بے روزگاری کا آسیب
بلوچستان ملک خداداد پاکستان کا وہ پسماندہ صوبہ ہے جو معدنی دولت سے مالامال ہونے کے سبب پوری دنیا میں اپنی معدنیات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن اس کے مکین خصوصاً نوجوان ایک عرصے سے بے روزگاری سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں محکمہ پولیس نصیر آباد کی جانب سے مختلف آسامیوں کی چند پوسٹوں کے لئے ہزاروں نوجوانوں کی قسمت آزمائی کی خبریں شائع ہوئیں جس میں الزام لگایاگیا کہ اس میں موجودہ اور سابقہ وزراء کی اقربا پروری کی شکایات موصول ہوئیں جانبداری اس قدر کہ ایک معذور شخص کو بھی سفارش پر لیا گیا،ہوسکتا ہے کہ یہ معذوروں کے کوٹہ پر ملازمت کے لئے لیا گیا۔
کوئٹہ شہر کو وسعت دینے کی ضرورت
ملک کے دیگر صوبوں کے دارالحکومت کی طرح کوئٹہ جو چند لاکھ افراد کے لئے بنایا گیا تھا اب اس میں لاکھوں افراد نے کوئٹہ شہر کے گردونواح میں رہائشی اسکیمات تعمیر کرکے اس شہر کی آبادی میں اچانک اضافہ کردیا جس کے سبب اس شہر کی قائم پرانی سڑکیں اب شہرکی ٹریفک کا بوجھ سنبھالنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ دن کے اوقات میں سریاب روڈ سے شہر تک آتے آتے دو گھنٹے سے زائد کا عرصہ لگ جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سریاب سے جناح روڈ تک شہر کی سڑک پر بے پناہ رش رہتاہے خصوصاً یونیورسٹی چوک‘ سدا بہار ٹریمینل کے نزدیک‘ اے جی آفس چوک‘ سول ہسپتال چوک سمیت اسپنی روڈ سے بے نظیرپل‘ وائٹ روڈ چوک پر دن کے اوقات میں ٹریفک کی روانی شدید متاثر نظر آتی ہے۔