ملک کا سب سے بڑا یعنی 47فیصدرکھنے والا صوبہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کی نسبت جی ٹی اور موٹر ہائی ویز سے مکمل طورپر محروم رکھا جارہا ہے۔ کوئٹہ تا کراچی‘ کوئٹہ تاتفتان‘ کوئٹہ تا چمن‘کوئٹہ تا ژوب ڈیرہ اسماعیل خان کوئٹہ تا جیکب آباد‘ کوئٹہ تا تربت کی شاہرائیں جن پر آج کے اس تیز رفتار دور میں ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے لئے محو سفر ہیں جن میں مسافر اور مال بردار گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں سفر کرتی ہیں۔ جب سے ملک کے دیگر صوبوں میں جی ٹی روڈز کے ساتھ ساتھ موٹر ہائی ویز بنائے گئے۔
Posts By: طارق بلوچ
سوئی گیس، سیندک، ریکوڈک اور بلوچستان کی تقدیر؟
جب مچھ‘ کوہلو‘ سوئی گیس‘ سیندک اور ریکوڈک بلوچستان کی تقدیر بدل نہ سکے تو سی پیک بلوچستان کی تقدیر کیسے بدلے گا؟ سوشل میڈیا پر درج بالا جملہ نظروں کے سامنے سے گزرا جو یقیناً کسی دل جلے بلوچستانی نے تحریر کی ہوگی۔ اس تحریر کے پیچھے ملک خداداد پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کی تلخ یادیں وابستہ ہیں جن سے بلوچستان کے عوام گزرے ہیں اور اب بھی گزر رہے ہیں۔یہاں پر میں چند مثالیں رقم کررہا ہوں اس امید کے ساتھ نہیں کہ میری تحریر سے وفاقی حکومت کے رویے میں اچانک تبدیلی آئے گی اور وہ بلوچستان کے عوام کے لئے شہد اور دودھ کی نہریں بہا دے گی۔
بلوچستان کے عوام کی مفلوک الحالی کب ختم ہوگی؟
بلوچستان ملک خداداد پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور پسماندہ صوبہ ہے،کوئٹہ کو چھوڑ کر اندرون بلوچستان کی صورت حال کا جائزہ لیں تو یہ حقائق ہمارے سامنے واضح طورپر آئیں گے کہ اندرون بلوچستان کے باسی آبنوشی‘ صحت عامہ‘ تعلیم‘ پختہ سڑکوں سمیت زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں،
قوم سیاسی اور معاشرتی گراوٹ کاشکار کیوں؟
بلوچستان پیس فورم کے چئیرمین نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سیاست اور ارتقاء کے عمل کو ایک خاص مقصد کیلئے روکا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرہ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی گراوٹ کا شکار ہے اب لوگ سیاست معاشرتی امور اورمعیشت… Read more »
بلوچستان کے طلباء کیلئے تعلیمی مسائل و مشکلات کیوں؟
بلوچستان کے مسائل اس قدر ہیں کہ ان پر ہر روز کالم لکھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ایک مسئلہ کے حل کی نوید حکومتیں سنادیتی ہے تو نصف درجن کے قریب مسائل پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ عوام ایک مسئلہ کے حل کی نوید سن کر پھولے نہیں سماتے کہ کم از کم کسی حکومتی شخصیت کے منہ سے یہ خوشخبری تو ملی کے اس اکلوتے مسئلے کے حل سے بلوچستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوگئیں پھر لوگ یہ مسئلہ بھول جاتے ہیں حکمران بھی اپنی اپنی ترجیحات کی جانب اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اللہ اللہ خیر سلا، آزادی کے اندرونی صفحات میں محترم عتیق صدیقی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ صحافت کے طالب علموں کو پڑھایاجاتا ہے کہ حکومتیں اپنی کوتائیاں چھپانے کیلئے جھوٹ بولتی ہیں اس لئے صحافی کی اولین ذمہ داری لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔
حب شہر کا خستہ حال پل
یوں تو بلوچستان بھر کی سڑکوں کے بارے میں لکھا جاسکتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایک شخص نے حب کو کراچی سے ملانے والے پل کی تصویر دے کر اس کی مخدوش صورت حال بارے بتایا کہ حالیہ سیلابی ریلوں نے اس پل کو کافی حد نقصان پہنچا یاہے اسکے پلرزتصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں کہ کس طرح سے جھک گئے ہیں ایسے میں آفرین ہے نیشنل ہائی وے حکام پر جنہوں نے اس کی نشاندہی سے ہی آنکھیں ا س طرح موندھ لی ہیں جس طرح کتوبر بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرتا ہے۔ اس طرح نیشنل ہائی وے حکام کی غفلت کاجس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔
جام صاحب!خدارا کچھ کیجئے؟
تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کی جانب سے ایک مرتبہ پھر گزشتہ روز سے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ سنبل چوک نزد گورنر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ قائم کیا گیا ہے۔اس سے قبل بھی تحریک کی جانب سے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے باہر کیمپ کئی روز تک جاری رہا،پھر وزراء کی جانب ان سے ملاقاتیں کی گئیں،تسلی وتشفی دی گئی، اس کے بعد بلوچ طالبات کی گرفتاری اور انہیں پولیس تھانہ کے لاک اپ میں قید رکھنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بلوچستان کے عوام نے دیکھیں جو یقیناً انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت بات تھی کہ ان کے ساتھ ہمارے پولیس افسران نے کس طرح بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔
حیات بلوچ کی ناگہانی موت‘ بلوچستان سوگوار
تربت کے نوجوان حیات بلوچ کی ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکت نے بلوچستان بھر میں ایک طوفان برپا کرکے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔سوشل میڈیا میں ان کے والد اور بوڑھی والدہ کی جوان بیٹے کی سڑک پر پڑی لاش والی تصویر نے بلوچستان بھر کیا ملک بھر کے لوگوں خصوصاً والدین کو رلا دیا۔ یہ ایک ایسی دلخراش تصویر تھی کہ جو ہر ذی شعور انسان کے دل کو چیر کر گزری۔ آج اگر بلوچستان سمیت ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات شدت کے ساتھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے غریب طالب علم حیات بلوچ کی موت نے ملک کی فضا کو رنجیدہ کردیاہے۔
جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس کا گورکھ دھندا
وزیراعلیٰ جام کمال خان کی جانب سے یہ بات خوش آئند ہے کہ انہوں نے جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹس بنانے کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ٹھان لی ہے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ جعلی ڈومیسائل پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے تمام معاملات پر نظر ہے صوبے میں جہاں بھی کمزوری اور کوتاہی برتی گئی وہاں نہ صرف افسران کو معطل کیا گیا بلکہ تحقیقات ہورہی ہیں جوصوبے نے ماضی میں بھگتا ہے اگر اب بھی ہم نے خاموش رہتے ہوئے کوئی ایکشن نہ لیا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا وزیراعلیٰ کے بقول وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم‘ اینٹی کرپشن اور دیگر محکموں کو فعال کردیا گیا ہے اب تک صوبے میں درجنوں افسروں کو ناقص کارکردگی کی بناء پر معطل کیا جاچکا ہے۔ یہاں ہم یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی سندھ میں بڑے پیمانے پر جعلی ڈومیسائل بنانے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے 68افسران کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔
”جعلی ڈومیسائل‘ لوکل سرٹیفکٹس کا گورکھ دھندا“
مقام شکر ہے کہ سینٹ سے قرار داد کی منظوری اور گورنر سیکرٹریٹ سے صوبے کے تمام اضلاع کے انتظامی آ فیسران کے نام لکھے گئے مراسلے کے بعد بلوچستان بھر کے اضلاع میں صوبے کے کوٹہ پر وفاقی محکموں میں ملازمتیں حاصل کرنے والے افراد کے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکٹس کی دوبارہ تصدیق کا آغاز کردیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر جعلی اور بوگس ڈومیسائل کا انکشاف ہوا ہے۔