صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی حالت زار آئے روز بگڑتی جارہی ہے بد نظمی اور بد انتظامی صورت حال نے بلوچستان کے واحد بڑے شہر جو حالت بنا رکھی ہے اس میں جہاں غیروں نے ہم اسے انجام سے دو چار کیا ہے وہاں ”انہوں نے’‘ بھی اس شہر کی بربادی میں زیادہ سے زیادہ ”حصہ“ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
Posts By: طارق بلوچ
بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل۔۔۔”بلوچستان ہائی کورٹ اور سینٹ کمیٹی اجلاس میں غور
بلوچستان یونیورسٹی میں ویڈیو اسکینڈل کے طشت از بام ہونے سے جوسنگین صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات نہ صرف دارالحکومت کوئٹہ بلکہ اندرون بلوچستان تک شدت کے ساتھ محسوس کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف بلوچستان بھر کے طول وعرض میں احتجاجی جلسے و جلوس نکالے گئے اور ان میں یہ مطالبہ شدت کے ساتھ کیا گیا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ اس مقدس ادارے کی جس طرح ملک بھر میں بے توقیری ہوئی وہ نہ صرف بحال ہو بلکہ خوف میں مبتلا، تعلیم کی غرض سے آنے والی بچیاں خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر سکیں کیونکہ اب تک کی صورت حال انتہائی ہیجانی صورت اختیار کر گئی ہے اس کے منفی اثرات نہ صرف ان معصوم طالبات بلکہ ان کے خاندا ن کے افراد یعنی والدین پر بھی بری طرح پڑے ہیں۔
ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندی‘ ہزاروں افراد بے روزگار‘ کئی گھروں کےچولہے بج گئے
کوئٹہ : ایرانی پیٹرول کے کاروبار پر پابندی کے بعد بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ہزاروں با روزگار افراد بے روزگار بن گئے،اور ان کی بے روزگار بننے سے ہزاروں خاندانوں کے گھر کے چولہے بج گئے،با عزت روزگار کے موقع بند ہونے کے بعد ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں بیک مانگے یا پھر چوریاں شروع کریں بے روزگار ہونے والے نوجوانوں کا اظہار۔
بلوچستان یونیورسٹی کا طاقتور وائس چانسلر
جامعہ بلوچستان کے اسکینڈل کیخلاف اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن سے لیکر بلوچستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول طلباء تنظیمیں بیک وقت اس بات پر شدت کیساتھ آواز بلند کر رہی ہیں کہ اس گھناؤنے اسکینڈل کی صاف وشفاف تحقیقات کرانے اور اس میں ملوث مکروہ چہروں کو سامنے لانے کیلئے فوری طورپر وائس چانسلر کو اس کے عہدے سے برطرف کیا جائے تاکہ تحقیقاتی عمل میں کسی قسم کادباؤ یا رکاوٹ نہ ڈالا جاسکے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول طلباء تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں کہ وائس چانسلر کو برطرف کیا جائے لیکن موصوف کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ وہ بد ستور اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کے مکروہ چہرے
بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کی خبروں کے ساتھ بلوچستان بھرمیں والدین میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑگئی ہے کیونکہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ اور تاریخ رکھنے کی وجہ سے انتہائی حساس صوبے کے طورپر جانا جاتا ہے اور پھر یہاں خواتین کو ہراساں کرنے کی خبریں تو اس سے قبل کسی نے نہیں سنیں اور نہ ہی آج تک ایسا کوئی واقعہ کسی دوسرے چھوٹے قصبے یا گاؤں میں رونما ہوا، اس کی خالصتاً وجہ یہاں کا قبائلی سیٹ اپ ہے جس میں خواتین کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے خواتین کے ساتھ کسی قبائلی یا بڑی سے بڑی ذاتی دشمنی میں ایساکچھ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو بد قسمتی سے پاکستان کے دیگر دو صوبوں میں کیا جاتا ہے۔
بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ میں موجود ناشر کی ذہنی اختراع
بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے جماعت چہارم کے سرکاری نصاب میں بلوچ قوم کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے بلوچ اور براہوئی زبانوں کو الگ الگ قوموں سے منسوب کرنے کی سازش کرتے ہوئے کتاب چھاپی گئی۔ اس کتاب کے ناشر کی ذہنی شرارت نے جلتی پر تیل کاکام کیا جس پر سوشل میڈیا سے لے کر اخبارات میں اس کے خلاف خبریں شائع کی گئیں حتیٰ کہ طلباء تنظیم کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں اس دیدہ دانستہ شرارت کی سخت مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مذکورہ ناشر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں کسی اور کو اس طرح کی شرارت کرنے کی جرات نہ ہو۔
زائرین کے نام پر شہریوں کو یرغمال بنانا حیران کن ہے
گزشتہ چند سالوں سے ملک بھر کے مختلف شہروں سے بسوں کے ذریعے شیعہ زاہرین کو کوئٹہ کے راستے ایران بجھوانے کا سلسلہ شروع کیا گیاہے، شروع کے دنوں میں شہریوں نے اس پر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ شہریوں کا منفی رد عمل ظاہر کرنا بنتا بھی نہیں تھا۔ زائرین کو اپنے مذہبی رسومات یا ایران اور عراق جاکر اہم مقامات کی زیارت کرنے کا اتنا ہی حق ہے جس طرح ملک کے ہر طبقے کواپنے مسلک کے مطابق عبادات کرنے کا حق ہمارے ملک کے آئین کے تحت حاصل ہے۔
وزیراعلیٰ جام کمال کی خدمت میں!
بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے کا اہم ذریعہ سڑکیں ہیں جن کی حالت اب بتدریج بہتر ہورہی ہے گوکہ آج ان کی حالت کا فی حد تک بہتر ہوچکی ہے لیکن یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ ترقی کا یہ عمل انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے۔
بلوچستان میں حکومت سازی کا عمل
ملک بھرمیں 2018ء کے عام انتخابات کا عمل لگ بھگ اپنے اختتام کو پہنچا گیاہے۔ چند ایک مقامات پر اعتراضات کی بناء پر ان حلقوں میں دوبارہ گنتی کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے ۔ بعض نتائج کی گنتی دوبارہ کی گئی جو امیدوار ناکام تھے وہ کامیاب قرار دئیے گئے اور جو کامیا بی کا جشن منارہے تھے ،ناکام قرار دے کر ان کی خوشیوں کا خاتمہ کردیاگیا ۔
544ووٹ لینے والا وزیراعلیٰ ’’ سب پر بھاری ‘‘
بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے وزارت اعلیٰ کا منصب کیا سنبھالا ‘ کہ ان کے خلاف ان کے حاصل کردہ 544ووٹ طعنہ بن گئے ۔موجودہ اورسابق وزیراعظم نواز شریف سمیت ہر مخالف شخص نے آستین چڑھا کر بولنا شروع کردیا۔ میر عبدالقدوس بزنجو کن حالات کے تحت وزیراعلیٰ بنے۔