|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2019

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی حالت زار آئے روز بگڑتی جارہی ہے بد نظمی اور بد انتظامی صورت حال نے بلوچستان کے واحد بڑے شہر جو حالت بنا رکھی ہے اس میں جہاں غیروں نے ہم اسے انجام سے دو چار کیا ہے وہاں ”انہوں نے’‘ بھی اس شہر کی بربادی میں زیادہ سے زیادہ ”حصہ“ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

شہر میں کوئی ایک سڑک نہیں جہاں ٹریفک جام نہیں رہتا ہو خصوصاً صبح اور دوپہر کے اوقات میں جب دفاتر جانے والوں اور سکولوں کو جانے والوں کا بے پناہ رش ان چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر امڈ آتا ہے چونکہ سرکاری سطح پر دفاتر اور اسکولوں کو جانے والوں کے لئے سرکاری بسیں نہیں چلتیں اس وجہ سے دیگر چھوٹی پرائیویٹ گاڑیوں کی تعداد میں ان بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے اگر اس کے علاوہ بھی آج ان سڑکوں پر سفر کریں تب بھی آج کل شہر کی ہر سڑک اور ہر چوراہے پر ٹریفک جام نظر آتا ہے ایسے میں ہر شخص آپ کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار نظر آئے گا گاڑی میں سفر کرنا آج جس طرح مشکل اور درد سر بن چکا ہے اس کی مثال دیگر کسی شہر میں نہیں ملتی دیگر صوبوں کے دارالحکومتوں میں بھی آبادی کا دباؤ بڑھ چکا ہے جس طرح کوئٹہ پر بڑھ چکا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ دیگر شہروں میں کہیں نہیں کہیں کوئی پلاننگ نظر آتی ہے۔

یہاں سرے سے پلاننگ نہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ”پلاننگ“کس چڑیا کا نام ہے اس سے ہر شہری کے ساتھ ساتھ ہمارے سرکاری اداروں ”منسلک آفیسران و انجینئر صاحبان“ اس لفظ سے بھی نا بلد ملیں گے شہر میں اب یہ بات رہی نہیں کہ کون سا علاقہ یا کونسی سڑک کمرسل ہے یا ریذیڈیشنل ’اب یہ تمیز ہماری لینڈ مافیا نے اپنی ”کالی دولت“ یعنی بلیک منی ’کے ذریعے ختم کرکے رکھ دی ہے جہاں چاہیں آپ بلڈنگ کوڈ کے بر خلاف پلازہ کھڑی کریں یا سرکاری اراضی کو ”لیز کے ڈرامے“ کے طورپر اپنے نام کرکے کمرشل پلازہ تعمیر کرائیں ”کوئی قانون یا ہاتھ“ آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ اگر کسی نے بننے کی وکشش کی تو آپ اپنے ”کمال“ سے اسے اپنی دولت کے ذریعے”ڈھیر“ کر سکتے ہیں آج یہ شہر ایشیاء کا ”ماحولیاتی آلودگی“ میں اپنا نام پیدا کر چکا جبکہ انگریزوں کے دورمیں اسے ”لٹل لندن“ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جب آپ کوئٹہ کی زلزلے کی پہلے کی تصاویر دیکھیں تو آپکو قدرتی طورپر ان سڑکوں ’شاہراہوں اور انگریزی طرز تعمیر کی عمارت دیکھ کر یقین نہیں آئے گا۔

کہ کوئٹہ اس قدر خوبصورت رہا ہے ان تصاویر کی کشش اتنی ہے کہ آپ کو ایک ذہنی آسودگی ملتی ہوئی محسوس ہوتی ہے چہ جائیکہ آج کا بد صورت کوئٹہ ’جس کی صورت کو ہم انسانوں نے خود اپنے رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا ہے جہاں چاہیں عمارت تعمیر کریں جہاں چاہیں قبضہ کرکے بلند وبالا عمارات تعمیر کریں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا صوبائی دارالحکومت ہر طرف سے آپ کو ”جام”نظر آتا ہے خدانخواستہ اگر آپ کسی ایمر جنسی میں کسی ہسپتال پہنچنے کی کوشش کریں تب بھی آپ کو ٹریفک کی بد ترین صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ بغیر کسی ذہنی دباؤ کے کسی مقام تک پہنچ سکیں۔

کوئٹہ کی بربادی میں کئی مرتبہ وفاقی سطح پر اربوں روپوں کے فنڈ ملنے کے اعلانات ہمارے ان کانوں نے سنے‘ کبھی کوئٹہ بیوٹیفکشن کے نام پر کبھی لٹل پیریس کے نام پر مجھے آج بھی یاد ہے ایک سابق وزیراعلیٰ کے وہ ڈائیلاک کہ میں کوئٹہ کو لٹل پیریس دیکھنا چاہتا ہوں لیکن افسوس کہ آج سابق وہ وزیراعلیٰ منوں مٹی تلے آرام فرما رہے ہیں لیکن وہ اپنا یہ خواب پورا نہیں کر سکا یہ صورت حال پہلے بھی اس طرح رہی آئند بھی ایس طرح رہے گا۔

ستر ارب روپے کی خطیر رقم سے کوئٹہ کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں کے کناروں پر کھدائی کرکے ”واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ“ کے نام ڈرامہ بازی کرتے ہوئے کوئٹہ شہر بھر کے گندے پانی کو اسپینی روڈ پر پہنچا ئے اور پھر اسے صاف کرکے دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے جو رقم ”ڈاکہ مارتے“ ہوئے پانی جیبوں میں جس طرح جس سابق حکمران یا حومت نے ٹھونسی آج یہ شہر ان نالوں اور ان کے اوپر بچھائے ہوئے ”سلیبوں“ کی وجہ سے نہ صرف کھنڈر بن چکا ہے بلکہ شہریوں کی گاڑیوں کو جہاں ان چھوٹی چھوٹی سڑکوں کی چوڑائی کم ملی بکلہ ان کی گاڑیاں ان نالوں میں گرتی رہتی ہیں جس سے انہیں نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کیونکہ ”ستر ارب روپے کے ڈرامہ بازی پراجیکٹ ”کو اس وقت کے حکمرانوں نے جس طرح ٹھکانے کا انتظام کیا۔آج اس کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کمال بات یہ ہے کہ شہریوں کے یہ ستر ارب روپے جس طرح لوٹے گئے ان کے لٹیروں پر آج تک نہ تو کسی حکومت نے اور نہ ہی کسی ادارے نے ہاتھ ڈالکر ان سے بر آمد کیا بلکہ یہ بات سنتے ہیں کہ فلاں ادارے میں اس کی تحقیقات جاری ہے لیکن یہ تحقیقات کسی منڈیر پر چڑھتی نظر نہیں آتی یا اگر ہمارے ملک اور خصوصاً کوئٹہ یا بلوچستانمیں سزا وجزا کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے ان”سفید پوش تعلیم یافتہ داکوؤں“ کو زندانوں میں ڈالنے کا رواج ہوتا تو ہمارا یہ شہر یا دارالحوکمت اس طرح لٹیروں کے ہاتھوں نہ لٹ چکا ہوتا آج ہمارے ملک اور صوبے میں لٹنے کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم نے لٹیروں کا روپ دھار لای ہے۔

بقول سابق وفاقی وزیر داخلہ خواجہ آص ”نا کوئی شرم نہ کوئی حیاء‘ آپ جب بھی کسی محفط میں بیٹھے ہوں تو آپ کو ہر شہری اپنے اپنے مسائل اور مشکلات کی وجہ سے روتا ہوا ملتا ہے کوئی سکون یا چین کی زندگی بسر کرتا محسوس نہیں ہوتا اور پھر ہم اپنی دل کی بھڑاس اس طرح نکالتے ہیں کہ ہم یا تو اسلام آباد یا پھر یورپ امریکا کے نظام کی تعریف کرکے اپنے ہی ملک و صوبے کو گالیاں دے کر اپنی کلیجہ ٹھنڈا کرتے ہوئے اس محفط میں بیٹھے ہوئے افراد میں خود کو بہت بڑا سمجھدار اور با شعور سمجھتے ہیں جب کہ عملی طورپر ہم کبھی بھی”پریکٹیکل“ بنے یا اچھا انسان بننے کی کوشش نہیں کرتے جب ہم ذہنی طورپر اچھا انسان بننے کو تیار نہ وہوں تو ایسے میں ہماری بستیاں یا شہر کس طرح خوبصورت ہوں گے کوئٹہشہر کی اندرونی سڑکوں یا آبادیوں کو جس طرح راتوں رات بغیر کسی منصوبیکے ریذیڈیشنل سے کمرشل کردیا گیا۔

اس نے شہر کو جہاں بد صورت کردیا وہاں آج ہر شہری شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکا ہے آجیہی وجہ ہے کہ اس شہر یعنی صوبائی دارالحکومت میں پارکس کی تعداد نہ ہونے کے برابر‘ جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ان ہسپتالوں تعداد سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ہمارے صوبے کے لوگوں کو کس طرح ”امراض“ کا شکار بنا یا گیا ہے اور پھر افسوس اس بات کا کہ کوئی اس زخم کا ”درمان“ لگانے والا بھی دور دور تک نظر نہٌں آتا شہر میں ایک بے نظیر بھٹو کے نام سے ”جو اوور ہیڈ بریج“ تعمیر کیا گیا اسکے اوپر”ایک چوک“ بنا کر ٹریفک سگنل بھی لگا کر ہمارے انجینئروں نے اپنی ذہنی صلاحیت ظاہر کردی جب آپ اوور ہیڈ بریج بناتے ہیں اس کا مقصد ٹریفک کو جاری رکھنا ہوتا ہے ایس یمیں برج کے اوپر ٹریفک سگنل دے کر تو اس کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے اس پر تو یہ اس انجینئر کے ڈوپ کر مر نے کا مقام ہے اور یہ اس وقت کے حکمران کے منہ پر طمانچہ ’لیکن کیا کیا جائے ہم کوئی غیرت مند قوم نہیں ہیں کہ کسی کو مثال پیش کر سکیں۔

ہم نے دنیا بھر میں جھوٹ اور منافقت میں نام پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ’بقول مرحوم ڈاکٹر اسرار احمدصاحب کہ ہم دنیا کی منافق ترین قوم ہیں جو جتنے بڑے عہدے پر وہ اس قدر بڑا جھوٹا اور منافق ’اللہ امان و الحفیظ‘ کوئٹہ شہر میں آج انڈر پاسز کی بے پناہ ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے تاکہ ٹریفک کو جام رہنے سے روکا جا سکے اور ٹریفک رواں دواں ہو جس کی مثال کراچی کی بڑی بڑی شاہراہوں پر میلوں پلوں کی تعمیر ہے۔

اگر اس وقت کے میر مصطفیٰ کمال کے دور میں یہ بڑے بڑے پل تعمیر نہ ہوتے تو آج کراچی مکمل طورپر جام رہتا لیکن اللہ بھلا کرے اس مرد مجاہد کا‘ جس نے یہ کمال کرکے اپنا نام پیدا کردیا ہمارے وزیراعلیٰ جام کمال صاحب بھی انتہائی ایماندار‘صوم و صلوہ کے یا بند شخصیت کے مالک ان کو اس شہر پر اس کے باسیوں پر ”ترس“ کھانی چائیے انہیں بھی اس شہر میں انڈر پاسز اور اوور ہیڈ بریجز کی تعمیر پر بھر پور توجہ دے کر اپنا نام اور کردار ہمیشہ کے لئے لوگوں کے ذہنوں پر کندھا کرنا چائیے۔

بقول وزیراعظم عمران خان کہ نیلسن منڈیلا نے اپنے ملک کو خون خرابے سے بچا کر سب کو معاف کرکے اپنی نام تاریخ میں رقم کردی۔ دنیا تک ان کی عزت قائم رہے گی بالکل اچھے کام کرکے ہم بھی اپنا نام تاریخ میں رقم کر سکتے ہیں میرا برادرانہ مشورہ جام صاحب کے لئے بھی یہی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو منوا کر کوئٹہ شہر کی حالت بدلنے کے لئے فوری اقدامات کرتے ہوئے فنڈز مختص کریں ایک جوائنٹ روڈ یا ائیر پورٹ روڈ کی کشادگی پر پھولیں نہ سمائیں ’شہرکی حالت بدلیں آپ خلق خدا کے کام آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس میں سرخرو کریں گے یہ ہمارا ایمان ہے۔