گوکہ میں علم معاشرت کا کوئی ماہر نہیں لیکن میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں مجھے بلواسطہ یا بلا واسطہ کئی ایسے معاشرتی اصطلاحات کا سامنا رہتا ہے جو میری انفرادی و اجتماعی زندگی, میری نفسیات اور میرے رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اصطلاحات کے اس سمندر میں ایک ایسا اصطلاح جو گائے بگائے میری نفیساتی تعاقب میں لگا رہتا ہے اس کا نام ہے ’’ غیرت‘‘ ۔ درحقیقت یہ ایک ایسا عام یا غلط العام اصطلاح ہے جس کا استعمال بڑی دیدہ دلیری ‘ اشتیاق اور پرتپاک انداز میں اس معاشرے کا عام و خاص کرتا ہے ۔ بد قسمتی سے اس اصطلاح میں ایندھن کی مانند آگ لگانے کی صلاحیت موجود ہے جو کسی انسان کی جسمانی و کردار کے قتل سے لے کر پوری کی پوری بستیوں کو خاکستر کرنے کی صلاحیت اپنے اندر سموئے رکھتی ہے ۔ اس اصطلاح کی مختلف اشکال انفرادی غیرت‘ خاندانی غیرت‘ قبائلی غیرت ‘ دینی و قومی غیرت ہمارے گردو بیش میں رقص بسمل کرتے نظر آتے ہیں
سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان کشیدگی اُس وقت سامنے آئی جب ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر کے سامنے سے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا اور قومی احتساب بیورو کی ترجمان نے ان کی گرفتاری سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو چوبیس گھنٹے کے بعد انسداد دہشت گردی کی علامت کے جج سلیم رضا بلوچ کے سامنے پیش کیا اور آگاہی دی تھی کہ انہیں روز کیلئے حراست میں رکھاگیا ہے اس تحریری بیان میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا
کوئٹہ: ڈھائی سالہ قوم پرست حکومت کا کارنامہ‘لاوراث 34بلوچوں کی شناخت تاحال نہ ہوسکی‘ 22مارچ 2013ء کی علی الصبح گڈانی موڑ کے قریب تربت سے کراچی جانے والی کوچ کو حادثہ پیش آیا‘حادثہ کوچز میں غیر قانونی پیٹرول و ڈیزل سے پیش آیا‘ جس کے باعث 34 افراد جاں بحق جبکہ 5 افراد جھلس گئے‘ جاں بحق افراد میں 12 کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا جو لسبیلہ کے رہائشی تھے دیگر سابق صوبائی وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے علاقے سے تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ قوم پرست اور وسائل کے دعویدار بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے جاں بحق افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے اخراجات تک نہیں دیے‘ المیہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر جب میں نے کچھ وزراء سے اس متعلق سوالات کیے تو وہ اِس واقعہ سے بالکل لاعلم دکھائی دیے۔ آج بھی 34 لاوارث لاشیں ضلع لسبیلہ کے علاقے
پاکستان کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔جسے کسی بھی ملک کے لیے رحمت سمجھا جا سکتا ہے۔مگر ریاست اور حکومت کی نااہلی کے باعث یہ رحمت ،زحمت بنتی چلی جا رہی ہے۔ نوجوانی کی آمد، مسائل و متعلقات سے آگاہی تو دور کی بات اس بابت سرے سے مکالمے کا ہی فقدان ہے۔ آئیے بعض حوالوں سے اس اہم موضوع کے مختلف تناظرات اور پہلوؤں کو دیکھتے ہیں۔
لکھنے والا زمین پہ رہ کر لکھتا ہے، اور اہلِ زمین سے جڑا ہوتا ہے، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ زمین اور اہلِ زمین سے لاتعلق رہ سکے۔لکھنا ، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سو،ہر لکھنے والا اپنے قاری کا تعین ضروری کرتا ہے۔قاری بنا، تحریر کی کوئی وقعت نہیں۔ تحریر جب تک قاری تک رسائی نہ رکھتی ہو، اُس بچے کی مانند ہے جو ماں کے پیٹ میں تو موجود ہو،لیکن ابھی جنم نہ لیا ہوا۔قاری کا تعین کیے بنا لکھنے والا، گم راہ ہوجاتا ہے، یا اس کا لکھا بے اثر رہ جاتا ہے۔ اس پس منظر میں گل خان کا بالخصوص اردو کلام دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے گل خان کا مخاطب و قاری صرف نوجوان ہیں۔
15دسمبر 2015ء آواران کے لئے سیاہ باب رقم کر گیا ایک عظیم انسان تحصیل جھاؤ کو لاوارث چھوڑ گیا۔ ایک ایسا انسان جسے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا ابھی اسے مزید اپنی زمہ داری نبھانا تھا لیکن انسان دشمن قوتوں نے اس سے مزید زندہ رہنے کا حق چھین لیا۔ اسی شام جب وہ خدمت کا فرض ادا کرکے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا درندوں نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے منصوبے کو آخری شکل دے دی تھی۔ اور اسکا راہ تھک رہے تھے۔ اچانک گولیوں کی آواز آتی ہے۔ فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے زمین تڑپتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ گولیاں اسکی جسم میں پیوست ہو کر اسکی روح کو جسم سے الگ کر دیتے ہیں۔ پورا جھاؤ خاموش ہو جاتا ہے۔ زمین خون سے نہلا جاتا ہے۔ آسمان سسکیاں لے رہا ہوتا ہے۔ درندے اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں۔
کوئٹہ: شہ سرخی کے لفظ ڈھائی سالہ گزارنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ہیں‘ جنہوں نے مری معاہدے پر دستخط کے فوراََ بعد ’’روزنامہ آزادی‘‘ کیلئے ٹیلیفونک انٹرویو کے دوران میرے سوال کے جواب میں دیا‘ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے میرے سوال پر جواب دیا کہ میگا منصوبے کی تکمیل تو دور کی بات اگر گوادر کے عوام کو صاف پانی مہیا کروں تو یہ میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہوگی‘ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے ڈھائی سالہ دور حکومت کے دوران اپنے بات کی مکمل نفی کی‘ گوادر میں میگامنصوبوں کا آغاز تو کیا گیا مگر وہاں کے باشندوں کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے‘ جس کی حقیقت یہ تصویر خود بول رہی ہے‘ جس میں گوادر کے باشندے قطارلگائے پانی کے انتظارمیں کھڑے ہیں‘ گوادر کو پانی کی سپلائی آنکاڑہ ڈیم سے ہوتی رہی ہے
2013ء میں جہاں بلوچستان میں برائے نام الیکشن ہوا۔وہیں ایک ایسی کمزور حکومت سامنے آ گئی جسکے پاس اختیارات کم تو مسائل زیادہ تھے۔پورے ڈھائی سال بلوچستان کا صوبائی اسمبلی محازآرائی کا مرکز بنا رہا۔زیادہ تر وقت رسہ کشی میں گزر گیا۔ حکومت کے اندر بھی اور باہر گرم کچڑی پکتی رہی۔ کبھی ایسا موقع آیا کہ موجودہ سیٹ اپ ڈانواں ڈھول ہونے لگی تو کبھی اس میں نرمی بھرتی گئی۔ وفاق کے پاس ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے بہتر انتخاب شاید ہی کوئی اور ہوتا۔اور یہ سسٹم ایک معاہدے کے تحت عمل میں آیا جسے مری معاہدے کا نام دیا گیا شروع میں اسے صیغہ راز میں رکھا گیالیکن میڈیا ڈھائی سالہ دور میں مری معاہدے کا راگ الاپتا رہا۔
*بلوچستان کا شعبہ ابلاغ کہاں کھڑا ہے اس نے کتنی ترقی کر لی ہے مزید اسے کتنا ترقی کرنا ہے ؟ شعبہ ابلاغ عامہ کا انتخاب کرنے والا فرد کیا توقعات لیکر آتا ہے اور فارغ ہونے کے بعد انہیں کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں؟صحافتی ادارے کیا رول ادا کررہے ہیں۔ کیا بلوچستان میں ابلاغ عامہ نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کرسکے یا میڈیا انڈسٹری اتنی وسیع ہے کہ نووارد طالبعلموں کو اس میں داخل ہونے کے لئے کم محنت کرنا پڑے۔ اور بلوچستان کا سب سے بڑا جامعہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
تبدیلی آنے میں اتنا وقت کیوں لگتاہے؟ جو تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھکتے نہیں تھے وہ آج خود کیوں تبدیل ہو گئے؟ کیا تبدیلی کے لیے جو راستہ انہوں نے چنا وہ غلط تھا؟ وہ لوگ توقعات پر پورا اترنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟ پھر سوال اٹھتا ہے کیا تبدیلی خود بخود آجاتی ہے یا اس تبدیلی کے لیے خود کو کسی راستے پر ڈالنا پڑتا ہے؟ کیا تبدیلی کے لیے صرف تبدیلی کی راہ دیکھنا کافی ہے؟ ملا کو مسجد میں تبدیلی کا نعرہ لگاتے سنا، سیاستدان کو انقلاب کا نعرہ لگاتے سنا، جج کو منصف ہونے کا دعویدار ہوتے دیکھ لیا۔ میڈیا کو معاشرتی سدھار کی صدا لگاتے دیکھا۔ نعرہ لگانے والے تو توانا ہوتے گئے مگر معاشرے میں تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دکھائی نہیں دیئے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جہاں نئے مسائل نے جنم لیا وہیں معاشرے کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے کئی