17 سالہ خدیجہ لڑکوں کا روپ دھارے خود موٹر سائیکل چلا کر اپنے کالج پہنچتی ہیں جہاں پھر وہ لڑکوں کا لباس بدل کر کالج کا یونیفارم پہن لیتی ہیں کوئٹہ کے مضافات میں رہنے والی خدیجہ کو یہ بہروپ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر بھرنا پڑتا ہے کیونکہ اُنکے گھرکے پاس کوئی کالج نہیں ہے اُنہیں اس عمل سے کالج میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ کالج کے اساتذہ اُنکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں ویڈیو اسکینڈل کے طشت از بام ہونے سے جوسنگین صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات نہ صرف دارالحکومت کوئٹہ بلکہ اندرون بلوچستان تک شدت کے ساتھ محسوس کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف بلوچستان بھر کے طول وعرض میں احتجاجی جلسے و جلوس نکالے گئے اور ان میں یہ مطالبہ شدت کے ساتھ کیا گیا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ اس مقدس ادارے کی جس طرح ملک بھر میں بے توقیری ہوئی وہ نہ صرف بحال ہو بلکہ خوف میں مبتلا، تعلیم کی غرض سے آنے والی بچیاں خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر سکیں کیونکہ اب تک کی صورت حال انتہائی ہیجانی صورت اختیار کر گئی ہے اس کے منفی اثرات نہ صرف ان معصوم طالبات بلکہ ان کے خاندا ن کے افراد یعنی والدین پر بھی بری طرح پڑے ہیں۔
جامعہ بلوچستان کے اسکینڈل کیخلاف اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن سے لیکر بلوچستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول طلباء تنظیمیں بیک وقت اس بات پر شدت کیساتھ آواز بلند کر رہی ہیں کہ اس گھناؤنے اسکینڈل کی صاف وشفاف تحقیقات کرانے اور اس میں ملوث مکروہ چہروں کو سامنے لانے کیلئے فوری طورپر وائس چانسلر کو اس کے عہدے سے برطرف کیا جائے تاکہ تحقیقاتی عمل میں کسی قسم کادباؤ یا رکاوٹ نہ ڈالا جاسکے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول طلباء تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں کہ وائس چانسلر کو برطرف کیا جائے لیکن موصوف کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ وہ بد ستور اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کی خبروں کے ساتھ بلوچستان بھرمیں والدین میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑگئی ہے کیونکہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ اور تاریخ رکھنے کی وجہ سے انتہائی حساس صوبے کے طورپر جانا جاتا ہے اور پھر یہاں خواتین کو ہراساں کرنے کی خبریں تو اس سے قبل کسی نے نہیں سنیں اور نہ ہی آج تک ایسا کوئی واقعہ کسی دوسرے چھوٹے قصبے یا گاؤں میں رونما ہوا، اس کی خالصتاً وجہ یہاں کا قبائلی سیٹ اپ ہے جس میں خواتین کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے خواتین کے ساتھ کسی قبائلی یا بڑی سے بڑی ذاتی دشمنی میں ایساکچھ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو بد قسمتی سے پاکستان کے دیگر دو صوبوں میں کیا جاتا ہے۔
بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے جماعت چہارم کے سرکاری نصاب میں بلوچ قوم کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے بلوچ اور براہوئی زبانوں کو الگ الگ قوموں سے منسوب کرنے کی سازش کرتے ہوئے کتاب چھاپی گئی۔ اس کتاب کے ناشر کی ذہنی شرارت نے جلتی پر تیل کاکام کیا جس پر سوشل میڈیا سے لے کر اخبارات میں اس کے خلاف خبریں شائع کی گئیں حتیٰ کہ طلباء تنظیم کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں اس دیدہ دانستہ شرارت کی سخت مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مذکورہ ناشر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں کسی اور کو اس طرح کی شرارت کرنے کی جرات نہ ہو۔
گزشتہ چند سالوں سے ملک بھر کے مختلف شہروں سے بسوں کے ذریعے شیعہ زاہرین کو کوئٹہ کے راستے ایران بجھوانے کا سلسلہ شروع کیا گیاہے، شروع کے دنوں میں شہریوں نے اس پر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ شہریوں کا منفی رد عمل ظاہر کرنا بنتا بھی نہیں تھا۔ زائرین کو اپنے مذہبی رسومات یا ایران اور عراق جاکر اہم مقامات کی زیارت کرنے کا اتنا ہی حق ہے جس طرح ملک کے ہر طبقے کواپنے مسلک کے مطابق عبادات کرنے کا حق ہمارے ملک کے آئین کے تحت حاصل ہے۔
کریم امن فاؤنڈیشن (ہیلتھ و ایجوکیشن سروسز) کی زیر نگرانی بابو عبدالرحمن کرد کے نام سے ایک پبلک لائبریری کا قیام بمقام دشت جلب گندان ضلع مستونگ میں عمل میں لایا گیا۔
بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے کا اہم ذریعہ سڑکیں ہیں جن کی حالت اب بتدریج بہتر ہورہی ہے گوکہ آج ان کی حالت کا فی حد تک بہتر ہوچکی ہے لیکن یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ ترقی کا یہ عمل انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے۔
26مئی 1987ء وہ دردناک اور سانحہ کا دن ہے جس دن ملی رہبر تاریخ ساز قومی سیاست دان چیف آف سروان نواب غوث بخش رئیسانی کو شہید کیا گیا جس نے ہمیشہ مظلوم انسانوں کی آذادی ترقی اور خوشحالی چاہی۔ آج بلندکردار انقلابی رہنما اور با اصول سیاست دان فخرے بلوچستان شہید نواب غوث بخش رئیسانی کی 32ویں برسی پوری دنیا اور خصوصاََ بلوچستان میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منانے کا اہتمام کیا گیا جس کا بنیادی مقصد اس عظیم مجاہد اور عوام دوست رہنما کی تاریخی رول اور قومی خدمات سے اپنے غیور بلوچستانیوں کو آگاہ کرنا ہے۔
انسان کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ رہنے کے لیے مکان کی، بولنے کے لیے زبان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور چلنے کے لیے پاؤں کی۔ غرض ایک معیاری زندگی گزارنے کے لیے انسان کو بنیادی سہولیات سے آراستہ ہونے، فاصلوں کو کم کرنے کے لیے سواری،رابطے کے لیے موبا ئل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔