بلوچستان میں 18جون 2021ءکو سیاہ دن کے طور پر یاد رکھاجائے گا۔ اس دن ایک ایسی تاریخ رقم کی گئی کہ جسے بھلایا نہیں جاسکتا کہ کس طرح سے مقدس ایوان کے احاطے اور باہر ہنگامہ برپا کیا گیا جس کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو قطعاََ نہیں ٹہرایاجاسکتا بلکہ دونوں اطراف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
حکومت کی جانب سے میاںشہباز شریف کانام ای سی ایل میں ڈالنے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی صورت نہیں چاہتے کہ شریف فیملی کے خاندان میں جن افراد پر کیسز چل رہے ہیں انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے جس کی ایک واضح مثال شہبازشریف کو لندن جانے سے روکنا ہے باوجود اس کے کہ عدالتی فیصلے میں انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی مگر ائیرپورٹ سے انہیں اپ لوڈ کردیا گیا۔ ایف آئی اے نے تمام تر وجوہات سے لیگی رہنماؤں کو آگاہ کیا جبکہ ائیرپورٹ پر موجود لیگی رہنماؤں نے عدالتی فیصلہ ان کو دکھایا ۔
اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ آراہی کے باوجود بلوچستان اسمبلی کے رواں مالی سال 2021۔22کا بجٹ پیش کردیا گیا جبکہ 84.7ارب خسارے کے بجٹ پر بحث21 جون کو شروع ہوگا، بلوچستان کا رواں مالی سال 2021۔22 کا بجٹ صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے 584ارب کا پیش کیا،،،،بجٹ میں غیر ترقیاتی کاموں کے لئے 346اعشاریہ862 روپے جبکہ ترقیاتی مد میں 237 ارب روپر رکھے گئے.
دنیا کے جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کو مقدس ایوان کا درجہ حاصل ہے جہاں پر عوام اپنی رائے کے ذریعے اپنے نمائندگان کو پہنچاتے ہیں جس کا بنیادی مقصد عوام کیلئے بہترقانون سازی اور ملک کیلئے بہترین پالیسیاں مرتب کرنا ہے اور ایمانداری کے ساتھ ارکان اپنا کردار نہ صرف اپنے حلقے بلکہ ملک کے وسیع ترمفاد میں اداکریںاس لئے مقدس ایوان کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جس کے ماتحت تمام ادارے آتے ہیں اور ان کے حدود کاتعین کرنے کیلئے بھی اسی مقدس ایوان کے ذریعے ووٹ لیکر قانون بنائے جاتے ہیں۔گوکہ ہر عوامی وقومی مفادعامہ کیلئے قانون سازی کیلئے اسی مقدس ایوان کی رائے لی جاتی ہے اور اکثریت رائے سے ووٹ کے ذریعے قانون کو حتمی طور پر آئین کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
ملک میں معیشت کی بہتری کیلئے ٹیکس کے نظام کاشفا ف ہونا لازمی ہے کیونکہ اس کے بغیر معاشی ترقی کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا اور نادہندگان کوٹیکس نیٹ کے اندر لاناہوگا جوبڑے سرمایہ کارہیں کیونکہ بڑے صنعتکار اب بھی ٹیکس نہیں دے رہے حالانکہ وہ ملک کے اندر بڑی صنعتیںلگاکر بے تحاشہ منافع کمارہے ہیں مگر اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس بالکل نہیں دے رہے ۔ ساتھ ہی سیاستدان اور اہم شخصیات کی بھی بڑی لسٹ ہے کہ کس طرح سے انہوں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار کو بہت کم ظاہر کیا ہے جبکہ یہی حضرات بجلی اور گیس اپنی صنعت اور کاروبار کیلئے بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں ۔
بلوچستان میں حکومتی ٹریک ریکارڈ ہمیشہ خراب رہا ہے خاص کر کرپشن کے حوالے سے بلوچستان کی حکومتوں کو شدید تنقید کاسامنا کرناپڑا ہے خاص کر پرویزمشرف دور سے بلوچستان میں جس طرح سے حکومتیں بنائی گئیں اور سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آئیں انہوں نے یہاں کے سیاسی کلچر کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ مرکز میں بننے والی حکومتوں کو کبھی بھی صوبے میں حکومت بنانے میں کوئی دقت نہیں رہی
ملک میں معاشی حوالے سے کافی عرصے کے بعد ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔رواں سال جولائی سے اپریل کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار 12.9 فیصد ریکارڈ ہوئی ،رپورٹ کے مطابق ایک سال میں ٹیکسٹائل کی صنعت میں 3.39 فیصد،فوڈ، مشروبات اور تمباکو کی صنعتوں میں 2.52 فیصد، فارما سوٹیکل کی صنعت کی پیداوار میں 0.96 فیصد کی گروتھ، نان میٹالک منرل مصنوعات کی صنعت کی پیداوار میں 3.05 فیصد اور آٹو موبیل کی صنعت میں 1.68 فیصد پیداوار میں گروتھ ریکارڈ کی گئی۔
پاکستان میں عوام دوست بجٹ کا ذکر دہائیوں سے سنتے آرہے ہیں اور ہر حکومت اپنے بجٹ کو عوامی بجٹ کا نام ہی دیتی ہے صرف موجودہ نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی عوام کو اسی خوش فہمی میں رکھا کہ ہمارا وژن عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانا ہے تنخواہ دار سے لیکر مزدور طبقے کیلئے ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے اسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بجٹ بناکر عوام کو بہت بڑی خوشخبری دینگے ان خوشخبریوں کا سلسلہ چلتا آرہا ہے مگر عوام کے یہاں صف ماتم ہی بچھا رہتا ہے۔
بلوچستان اپنے محل وقوع اور سرحدات کی وجہ سے بہت ہی کم بحث کا حصہ بنتا ہے ہاں البتہ کوئی بڑاسانحہ رونما ہوجائے تو گھنٹوں تک اس پر بات کی جاتی ہے مگر اس کے اصل محرکات اور وجوہات کی کھوج اور گہرائی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ کیونکر بلوچستان میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور اس کے وجوہات اور مقاصد کیا ہیں۔ حسب روایت پرانی باتوں کو دہراکر محرکات پر کھل کر اظہار نہیں کیا جاتا یا پھر معلومات کے فقدان کے باعث سطحی بات زیادہ کی جاتی ہے۔
بلوچستان کاسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ جتنے ممالک نے بھی یہاں سرمایہ کاری کی انہوں نے بلوچستان کو ایک کالونی پالیسی کی طرز پر چلایا چند منصوبوں کے عیوض بلوچستان سے اربوں ڈالر کا منافع بھرپور طریقے سے کمایا اور اس کے ساتھ قانونی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے باقاعدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آگے بڑھ کر رقم بٹورنے کی کوشش کی۔اس کی بڑی مثالیں ہمارے یہاں کے میگا منصوبے ہیں جن کا حساب کتاب کبھی کسی وفاقی وصوبائی حکومتوں نے نہیں لیا خاص کر وفاقی حکومتوں کی ترجیحات میں اپنا منافع اور اپنے ساتھیوں کی اس میں شراکت داری رہی ہے۔