|

وقتِ اشاعت :   November 28 – 2021

گزشتہ چند ماہ کے دوران ویڈیواور آڈیولیکس نے سیاسی ماحول کوخاصہ گرمایا ہواہے، ججز اور سیاستدانوں کی ویڈیو ز اورآڈیوز لیکس ہونے کے بعد ایک نئی سیاسی بحث جہاں چھڑ چکی ہے وہیں اداروں کے ماضی کے فیصلوں اور سیاسی جماعتوں کی حکمرانی پرسوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگر حملے سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر جاری ہیں پہلے کارکردگی اور کرپشن کے معاملات پر بیان بازی پریس، کانفرنسزدیکھنے کو ملتے تھے اب ہر نئے روز یہ انتظار رہتا ہے کہ کوئی نئی ویڈیویا آڈیوتو منظر عام پر نہیں آرہی اور اس میں کونسے راز سامنے آنے والے ہیں ۔بہرحال گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے جڑی ایک مبینہ آڈیو سامنے آئی ہے۔

جس میں وہ یہ کہہ ر ہے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کو نہیں چھوڑنا ہے، خان صاحب کو ہر حال میں لانا ہے جبکہ جوڈیشری کی آزادی پر بھی بات کی جارہی ہوتی ہے ۔اس آڈیو کی تردید سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے کی گئی ہے مگر جس ادارے نے اس کی فرانزک کی ہے وہ اپنے مؤقف پر قائم ہے جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس حوالے سے قانونی راستہ اختیارکرنے سے گریز کیا ہے اور ان کاکہنا ہے کہ یہ سب کچھ جو لوگ کررہے ہیں وہ ایکسپوز ہورہے ہیں مگر حکومتی وزراء کی جانب سے بھرپور جواب دیاجارہا ہے ۔ گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف بیانات دینے پر مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کیخلاف دائر توہین عدالت کی درخواست مسترد کردی گئی۔سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار کے خلاف بیانات دینے پر مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور ریمارکس دئیے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان پر انفرادی حیثیت میں تنقید کی گئی، یہ توہین عدالت کا جرم نہیں بنتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ ججز قانون سے بالاتر نہیں اور جوابدہ ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد جج بینچ کا حصہ نہیں رہتے اور ان کا درجہ عام شہری کا ہوتا ہے۔عدالت کا اپنے فیصلے میں یہ بھی کہنا تھا کہ بطور شہری ان کے پاس داد رسی کے متبادل فورمز موجود ہیں ۔ یہ ایک اچھا فیصلہ عدلیہ کی جانب سے کیا گیا ہے اس سے اداروں کا وقار بلند ہوگا۔ بہرحال اب یہ سابق چیف جسٹس پر منحصر ہے کہ وہ مستقبل میں کیا راستہ اپناتے ہیں مگر دوسری جانب مریم نواز کے متعلق بھی ایک آڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ اشتہارات کے متعلق ڈائریکشن دیتے دکھائی دے رہی ہیں گوکہ اس کی تردید مریم نواز نے نہیں کی ہے مگر یہ ضرور فرمایا ہے کہ پارٹی اشتہارات کے متعلق میں کہہ رہی تھی مگر حکومت کی جانب سے یہی شبہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ حکومتی اشتہارات پر ایک غیر حکومتی نمائندہ ڈائریکشن دے کر اداروں کو چلارہی تھی جو قانون کی خلاف ورزی ہے ۔

البتہ یہ سیاسی جنگ جس تیزی سے پھیلتی دکھائی دے رہی ہے لگتا نہیں کہ معاملہ تھم جائے گا بلکہ آگے چل کر مزید یہ گمان کیاجارہا ہے کہ انکشافات سامنے آئینگے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پروار کئے جائیں گے ، اس سے اداروں پر بہت زیادہ اثر پڑے گا یہ کہنا کہ وقتی معاملات ہیں ایسا نہیں ہے لیکن جس طرح کی سیاست کی جارہی ہے اس کے اثرات مستقبل میں انتہائی منفی اور گہرے پڑینگے لہٰذا کوشش کی جائے کہ ملکی معاملات پر توجہ دی جائے لیکن ساتھ ہی سیاستدان اور اداروں کو اپنی سمت کا فیصلہ خود کرناہوگا تاکہ مستقبل میں ان کے عمل پر سوالات نہ اٹھائے جاسکیں۔