پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسزمیں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتاجارہا ہے،حالات سے لگتا ہے کہ وباء مزید پھیلے گا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرے گا۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہیں اور اس کی بڑی وجہ بے احتیاطی ہے جس پر بارہا زوردیاجارہا تھا کہ احتیاط کرتے ہوئے عوام ایس اوپیز پر عمل کریں مگرریلیف ملنے کے بعد ایس اوپیز کی دھجیاں اُڑادی گئیں۔اب حکومت بھی اس بات پر سوچ بچار کررہی ہے کہ جس تیزی کے ساتھ کوروناوائرس لوگوں کو متاثر کررہا ہے سخت لاک ڈاؤن کیاجائے۔
ڈنک سانحہ حادثاتی طور پر رونما نہیں ہوا اور نہ ہی اسے ایک عام سی ڈکیتی سے نتھی کیاجاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں عرصہ دراز سے ایسے دلخراش واقعات رونماہورہے ہیں جو کہ بسااوقات رپورٹ ہی نہیں ہوتے جس طرح پنجاب اور کے پی کے میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی، ساہیوال سانحہ، ایسے انگنت واقعات کو زیادہ میڈیا پر کوریج ملتی ہے بلکہ باقاعدہ میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے مہم چلائی جاتی ہے تاکہ ملزمان کو عبرت کا نشان بنایاجاسکے مگر بلوچستان میں ہونے والے واقعات پر انتہائی محتاط رویہ اپنایا جاتا ہے، اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کیاجاتا ہے مطلب اسے اپنے لئے رسک سمجھ کر رپورٹ کرنے سے گریز کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی ذمہ دار میڈیا سے زیادہ بلوچستان کی سیاسی خاص کر قوم پرست جماعتیں ہیں جب بھی کوئی معاشرہ بیگانگی اور انتشار کی طرف بڑھنے لگتا ہے تو اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کمزور نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ اور حکمرانی کے تخت پر بیٹھنے کیلئے سیاست کررہی ہیں۔
وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں لازمی سروسز ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کی درخواست پر وزارت داخلہ نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں لازمی سروسز ایکٹ کی سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کر دی ہے۔ وفاقی کابینہ کو ارسال کی گئی سمری میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین کے لیے آئندہ 6 ماہ کے لیے ہڑتال اور احتجاج پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔کورونا وائرس کے دوران عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرنے میں تعطل سے بچنے کے لیے لازمی سروسز ایکٹ لاگو ہوگا اور لازمی سروسز ایکٹ نافذ ہونے کے بعد ہڑتال اور احتجاج کرنے والے ملازمین کو برطرف اور گرفتار کیا جاسکے گا۔
کورونا وائرس کے ساتھ اب رہنا ہی ہے اس لئے وہ اقدامات اٹھانے پرغور کیاجائے کہ کس طرح سے ملکی معیشت کو واپس ڈگر پر لایا جائے۔چونکہ تجارتی سرگرمیوں کی بندش اس کا حل نہیں جس طرح سے رمضان کے آخری عشرے کے دوران تجارتی مراکز کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے تاجر برادری کو بڑے نقصان سے بچنا پڑا وگرنہ صورتحال خراب ہوتی، اس لئے اب اس جانب توجہ دینی چاہئے کہ کس طرح سے وباء کو بھی روکاجائے اور معاشی سرگرمیاں بھی معمول کے مطابق چلتی رہیں۔ چونکہ غریب عوام مزید سخت لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے ایس اوپیز پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی ہے۔
کوروناوائرس کی وباء دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد بیشتر ممالک نے اس سے بچاؤ کیلئے صرف لاک ڈاؤن کو ہی ہنگامی بنیادوں پر نافذکرنے کو اہمیت دی چونکہ یہ وباء ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوکر تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اب تک دنیا کے کم وبیش تمام ممالک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال برقرار ہے مگر دوسری جانب سخت لاک ڈاؤن کے بعد گرتی معیشت اور عوام کی مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاؤن ماڈل کو پیش کیا گیا جو کسی حد تک کارگر ثابت ہوا مگر بعض شعبے اب بھی بندش کا شکار ہیں،اسی طرح عوام کیلئے سب سے سستا سفری سہولت بس سروس بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہے جس سے براہ راست عام لوگ ہی متاثر ہورہے ہیں۔ ملک میں بس سروس بحالی کے حوالے سے مکمل طور پر فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان میں خواہ کوئی بھی جماعت جب بھی برسراقتدار آئی تواس نے سب سے پہلے عوام کو یہ خوشخبری سنائی کہ ملک میں معاشی انقلاب برپا کیا جائے گا،ماضی میں اپنی معیشت پر انحصار کرنے کی بجائے قرضہ لیا گیا لیکن ہماری پالیسی اپنی صنعتوں کو نہ صرف فروغ دینا ہے بلکہ اپنی پیداوار کو بڑھاتے ہوئے دنیا بھر کی مارکیٹوں تک پہنچانا ہے۔ عالمی مارکیٹ تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کو یقینی بناتے ہوئے ملکی معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا جائے گا جس سے روزگار کے بڑے پیمانے پر مواقع پیدا ہونگے اور ہماری صنعتیں ترقی کرینگی۔ بدقسمتی سے یہ محض دعوے ہی ثابت ہوئے حالانکہ دیکھاجائے پاکستان ایشیاء میں وہ واحد ملک ہے جو اپنے محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی منفرد حیثیت رکھتا ہے خاص کر گوادر کی ساحلی پٹی سے ہی اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔
بھارت…… پاکستان، چین اور نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باعث خطے کے امن کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ریاستی قبضہ گروپ کی طرح بھارت خطے کے ممالک کے لیے مصیبت بن گیا ہے۔ خطے کا کوئی بھی ملک نام نہاد جمہویت کے دعوے دار بھارت کی سازشوں سے محفوظ نہیں رہا۔بھارت کی جانب سے لداخ کے علاقے گالوان میں ایک سڑک اور پل کی تعمیر کے سبب چین کے ساتھ تنازعہ جاری ہے۔ چینی افواج بھارتی قبضے کے خلاف لداخ میں بھارتی فوجیوں کو مار بھگانے کے بعد مورچہ زن ہوگئی ہیں۔چینی صدر شی جن پنگ نے فوج کے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چینی افواج کو کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے، کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔
کراچی میں پی آئی اے کے تباہ ہونے والے مسافر طیارے کی تحقیقات کے لیے فرانس سے آئے ائیر بس ماہرین کی اجازت کے بعد طیارے کے ملبے کو ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔22 مئی کو لاہور سے کراچی آنے والا پی آئی اے کا بدقسمت طیارہ لینڈنگ سے چند سیکنڈ قبل گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں عملے کے افراد سمیت 97 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔حکومت پاکستان کی جانب سے طیارے کی تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مختلف زاویوں سے طیارہ حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے جبکہ ہوائی جہازوں کے انجن بنانے والی بین الاقوامی کمپنی ائیر نے بھی ماہرین کی ایک ٹیم تحقیقات کے لیے پاکستان بھیجی تھی۔ائیر بس کے ماہرین کی ٹیم 25 مئی کو پاکستان پہنچی تھی اور گزشتہ روز ٹیم نے جائے۔
گزشتہ روز کراچی کے رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے طیارے کوحادثہ پیش آیا،حادثے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 97 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں سے 16 میتوں کی شناخت ہوچکی ہے،جائے حادثہ اور طیارے کے ملبے سے 97 لاشیں نکالی گئی ہیں جن میں سے 16کی شناخت ہوگئی ہے، مسافر طیارہ کراچی میں لینڈنگ سے کچھ دیر قبل رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 92 مسافر اور عملے کے 8 ارکان سوار تھے۔ طیارہ حادثے میں دو افراد بشمول بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود معجزانہ طور پر بچ گئے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی صحت ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ مارکیٹوں میں عوام کا ہجوم ہے اور صورتحال میں نتائج جو بھی ہوں اس کے ذمہ دار عوام خود ہوں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر مرزا نے کہا کہ 24 گھنٹوں میں نئے کیسز اور اموات کی تعداد تشویش ناک ہے، کورونا روکنے کا بنیادی طریقہ سماجی میل جول میں کمی اور فاصلہ رکھنا ہے، 50 سال سے زائدعمر کے لوگ اجتماعات میں جانے سے گریزکریں جبکہ دکانوں اور ریل سمیت ٹرانسپورٹ کے لیے ایس اوپیزبنائیں۔انہوں نے کہا کہ مارکیٹوں اور دکانوں میں لوگوں کاجم غفیر دیکھا جارہا ہے، اس کے نتائج جوبھی ہوں گے اس کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے کیونکہ ہم کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ نماز عید کے موقع پر ایس او پیز کا خیال رکھیں اور بہتر ہے۔