|

وقتِ اشاعت :   November 11 – 2020

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور کی جانب سے مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز پر ذاتی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز ان دنوں گلگت بلتستان میں موجود ہیں جہاں وہ انتخابی مہم زور و شور سے چلا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے مریم نواز پر ذاتی حملے کیے تھے جس کی سیاسی اور عوامی حلقوں نے سخت مذمت کی تھی۔اب بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی وزیر کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ گزشتہ روز گلگت بلتستان کے ضلع نگر میں جلسہ عام سے خطاب میں وفاقی وزیر پر تنقید کرتے ہوئے۔

بلاول کا کہنا تھا کہ جب ہار نظر آتی ہے تو یہ لوگ گالی پر اتر آتے ہیں اور دھاندلی کی کوشش کرتے ہیں، ہر جگہ اپنے گندے وزیر کو بھیج کر گندی زبان استعمال کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نگر کی عوام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مریم نواز آپ کی مہمان ہے اورشاید ان کا گلگت کا پہلا سیاسی دورہ ہے اور گندا وزیر اپنی گندی زبان عورتوں کے خلاف استعمال کررہا ہے، کیا یہ آپ کی زبان اور ثقافت کا حصہ ہے؟واضح رہے کہ گزشتہ دنوں اسکردو میں جلسے سے خطاب میں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ آن ریکارڈ کہتا ہوں، مریم خوبصورت ہے، میں بھی مانتا ہوں لیکن اس خوبصورتی کے اوپر نواز شریف کی حکومتوں میں آپ کا کروڑوں روپیہ لگ چکا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ مریم نے نواز شریف کی دو حکومتوں میں ٹیکس کے پیسوں سے خود کو خوبصورت بنانے کیلئے کروڑوں روپے کی سرجریاں کرائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مریم کی یہ خوبصورتی بھی آپ کی دی ہوئی ہے اور یہ آپ کا مال ہے۔ گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں جس طرح کی زبان اور تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے یقینا یہ کسی بھی طرح سے سیاسی اخلاقی اقدار کے منافی ہے مگر بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں شخصیات کی ذات سے لیکر ان کے گھروں اور بیڈروم کے تذکرے تک نہ صرف جلسوں بلکہ ٹی وی شوز کے دوران بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس سے کیا امیج اور تاثر جائے گا کہ جس ملک میں کلچر، روایات اور خاص کر چادرکے تقدس کے حوالے سے دشمن تک کا احترام کیاجاتا تھا کہ ذاتی اختلافات کو صرف اسی حد تک ہی رکھا جائے گا مگر المیہ یہ ہے کہ اب سیاسی محاذ پر گھریلومعاملات کو گھسیٹاجاتا ہے اور جس کی زبان پر جو آئے وہ کہہ دیتا ہے کسی طرح بھی اخلاق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بات نہیں کی جاتی بلکہ چسکیاں لی جاتی ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح سے ان غلاظت والے الزامات سے لوگوں کو محظوظ کیا جائے۔اس سے ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی تربیت اور لیڈران کا جو معیار پہلے ہوا کرتا تھا۔

اب ہمارے یہاں نہیں ہے ماضی میں بھی سیاسی اختلافات انتہائی شدید ہوا کرتے تھے مگر وہ صرف سیاسی محاذ تک ہی محدود ہوتے تھے اور ایک دوسرے پر سیاسی بنیادوں پر الزامات لگایا جاتا تھا اور اس دوران متعدد عظیم رہنماء جیل میں بھی رہے لیکن رہائی کے بعد انہوں نے سیاسی مخالفین کے متعلق اس طرح کی زبان استعمال نہیں کی جس میں بات عزت تک آجائے۔ بہرحال اب منفی سیاسی روایت نے اس طرح اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں کہ سیاسی ورکرز آئے روز سوشل میڈیا پر اپنے مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کیخلاف ایسے پوسٹ کرتے ہیں کہ جو ناقابل برداشت ہوتاہے۔

اگر اسی طرح یہ سیاسی رویہ چلتا رہا تو آخر میں سیاست کا نام ونشان تک نہیں رہے گا اور انتخابی مہم سے لیکر پارٹی تشہیر تک کیلئے غلیظ زبان استعمال کی جائے گی جس سے سیاسی کلچر مکمل تباہ ہوکر رہ جائے گی۔