|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2020

بلوچستا ن میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے پی ڈی ایم کوئٹہ جلسے کے بعد مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت کے دو مؤقف سامنے آئے ہیں جس میں ایک نواب ثناء اللہ زہری کو جلسہ کی دعوت نہ دینا جبکہ دوسرا مسلم لیگ ن کا حالیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ ہے۔ اب تک جو اطلاعات اور بیانات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق جنرل عبدالقادر بلوچ نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کافیصلہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال پر پرانے اور نئے ساتھیوں سے مشاورت کرونگا جس کیلئے 7نومبر کو اجلاس بلایاہے اس کے بعد حتمی فیصلہ کر کے اپنا واضح مؤقف پیش کرونگا۔

جبکہ ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ میراکوئی ٹوئٹر اکاونٹ ہے کیونکہ گزشتہ روز جنرل عبدالقادر بلوچ کے متعلق ایک بیان سوشل میڈیا پر گردش کررہا تھا جس میں مستعفی ہونے کی بات کی گئی تھی اور اس میں ان کے ٹوئٹر اکاونٹ کو ظاہر کیا گیا تھا جبکہ جنرل عبدالقادر نے اب اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے۔ جنرل عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے افواج پاکستان کیخلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی،افواج پاکستان کو ادارے کے طور پر نشانہ بناناقبول نہیں ہے مسلم لیگ ن سے علیحدگی کی واحد وجہ فوج کیخلاف بیانیہ ہے۔

بہرحال مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف کے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے سے لیکر بلوچستان میں ن لیگ کی ختم ہونے والی حکومت تک جنرل قادر بلوچ مسلم لیگ ن کے ساتھ رہے اور پارٹی کو بلوچستان کی سطح پر لیڈ کرتے آئے ہیں باوجود اس کے بیشتر مسلم لیگی ارکان نے پارٹی چھوڑ کر بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور یہی وہ ارکان تھے جنہوں نے اپنے ہی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے اور ان کا مؤقف تھا کہ ن لیگ کی بلوچستان میں اکثریت ہونے کے باوجود ہمیں دیوار سے لگایا گیا جبکہ اتحادی جماعت کو میاں نواز شریف نے خوش رکھنے کیلئے صوبائی حکومت میں زیادہ اختیارات دے رکھے تھے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ نوازشریف کے خلاف جب فیصلہ آیا اور ان کی وزارت عظمیٰ چلی گئی تو اس دوران بھی نواز شریف کھل کر تنقید کرتے رہے مگر زیادہ تلخی حالیہ دنوں میں نظرآرہی ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا بلوچستان میں مستقبل کیا ہوگا یہ اہم سوال ہے کیونکہ مسلم لیگ ن بلوچستان میں کوئی خاص پوزیشن نہیں رکھتی اور نہ ہی اب کوئی اہم شخصیات مسلم لیگ ن سے وابستہ ہیں جن کا بلوچستان میں ووٹ بینک ہو کیونکہ بلوچستان میں شخصیات کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں اور ان کے نظریاتی ہونے کے حوالے سے تاریخی پس منظر کودیکھنا ضروری ہوگا۔

مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی ہو بلوچستان میں شخصیات نے ضرور ان جماعتوں میں شمولیت اختیار کی مگر وہ پارٹی نظریات کے کبھی پابند نہیں رہے ہیں اس لئے یہاں پر بڑی جماعتوں کا گراس روٹ تک کوئی خاص مقام نہیں ہے۔حال ہی میں شیخ جعفر مندوخیل نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی ہے جو مسلم لیگ ق سے تعلق رکھتے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ شیخ جعفر مندوخیل مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں کس طرح فعال کرتے ہوئے اس میں اہم شخصیات کی شمولیت کو یقینی بنائینگے جوایک چیلنج ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم کی جانب سے بلوچستان میں فرنٹ پر سردار اخترمینگل نظر آرہے ہیں۔

اور بیشتر نیوز چینلز پر بھی انٹرویوز دیتے دکھائی دے رہے ہیں اور پی ڈی ایم بیانیہ کو نہ صرف آگے لیکرجارہے ہیں بلکہ بھرپور طریقے سے بلوچستان سے اس کی نمائندگی کررہے ہیں باوجود اس کے کہ نوازشریف کے پرانے قریبی ساتھی محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی موجودگی میں سردار اختر مینگل کی زیادہ اہمیت سے یہ تاثر واضح ہوتا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن بلوچستان کے حوالے سے آئندہ جو بھی اہم فیصلے کرے گی اس میں سردار اخترمینگل کی رضامندی کو ضرور دیکھاجائے گا۔ بہرحال بلوچستان میں سیاسی ماحول آئندہ مزید گرم رہنے کے امکانات ہیں۔

جہاں تک عدم اعتماد کی تحریک لانے کی بات ہے تو بی این پی کے سینٹرل کمیٹی میں استعفوں اور عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے منظوری لے لی گئی ہے جبکہ جے یوآئی ف، پشتونخواہ میپ کے فیصلے کیا ہونگے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے مگر فی الوقت یہ کہنا کہ بلوچستان حکومت کیخلاف مؤثر انداز میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی اور بی اے پی سمیت ان کی اتحادی جماعتوں میں شامل ارکان اس عمل کا حصہ بنیں گے یہ کہنا مشکل ہوگا۔ بہرحال بلوچستان میں سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ شخصیات پارٹی فیصلوں اور نظریات سے آزاد ہوکر چلتے ہیں اس لئے کسی بھی تبدیلی کاآنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔