طیارہ حادثہ، تحقیقات سے قبل ابہام،حادثات کے اسباب جانناضروری ہے

| وقتِ اشاعت :  


کراچی میں پی آئی اے کے تباہ ہونے والے مسافر طیارے کی تحقیقات کے لیے فرانس سے آئے ائیر بس ماہرین کی اجازت کے بعد طیارے کے ملبے کو ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔22 مئی کو لاہور سے کراچی آنے والا پی آئی اے کا بدقسمت طیارہ لینڈنگ سے چند سیکنڈ قبل گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں عملے کے افراد سمیت 97 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔حکومت پاکستان کی جانب سے طیارے کی تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مختلف زاویوں سے طیارہ حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے جبکہ ہوائی جہازوں کے انجن بنانے والی بین الاقوامی کمپنی ائیر نے بھی ماہرین کی ایک ٹیم تحقیقات کے لیے پاکستان بھیجی تھی۔ائیر بس کے ماہرین کی ٹیم 25 مئی کو پاکستان پہنچی تھی اور گزشتہ روز ٹیم نے جائے۔



پی آئی اے حادثہ، عیدکی خوشیاں غم میں تبدیل،اداروں کی لاپرواہی، عوام کادرد

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ روز کراچی کے رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے طیارے کوحادثہ پیش آیا،حادثے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 97 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں سے 16 میتوں کی شناخت ہوچکی ہے،جائے حادثہ اور طیارے کے ملبے سے 97 لاشیں نکالی گئی ہیں جن میں سے 16کی شناخت ہوگئی ہے، مسافر طیارہ کراچی میں لینڈنگ سے کچھ دیر قبل رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 92 مسافر اور عملے کے 8 ارکان سوار تھے۔ طیارہ حادثے میں دو افراد بشمول بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود معجزانہ طور پر بچ گئے۔



کوروناپھیلاؤ کی ذمہ دار عوام کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


وزیراعظم کے معاون خصوصی صحت ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ مارکیٹوں میں عوام کا ہجوم ہے اور صورتحال میں نتائج جو بھی ہوں اس کے ذمہ دار عوام خود ہوں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر مرزا نے کہا کہ 24 گھنٹوں میں نئے کیسز اور اموات کی تعداد تشویش ناک ہے، کورونا روکنے کا بنیادی طریقہ سماجی میل جول میں کمی اور فاصلہ رکھنا ہے، 50 سال سے زائدعمر کے لوگ اجتماعات میں جانے سے گریزکریں جبکہ دکانوں اور ریل سمیت ٹرانسپورٹ کے لیے ایس اوپیزبنائیں۔انہوں نے کہا کہ مارکیٹوں اور دکانوں میں لوگوں کاجم غفیر دیکھا جارہا ہے، اس کے نتائج جوبھی ہوں گے اس کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے کیونکہ ہم کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ نماز عید کے موقع پر ایس او پیز کا خیال رکھیں اور بہتر ہے۔



شوگرانکوائری، سزاوجزا، حکومت کیلئے ایک امتحان

| وقتِ اشاعت :  


شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ اور ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء نے کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔ شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیاء نے وزیراعظم کے معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں انہوں نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔ 346 صفحات پر مبنی شوگر کمیشن کی حتمی رپورٹ میں شوگر ملز مالکان پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا ہے اور 200 سے زائد صفحات کی رپورٹ کے ساتھ شوگر ملز مالکان کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔ فرانزک آڈٹ میں شوگر ملز کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے بھی تفصیلات شامل ہیں۔



بلوچستان میں بیڈگورننس، ہونہارافسران کی حوصلہ شکنی کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ہمیشہ تعلیم یافتہ افراد کا ہوتا ہے دنیا آج جس طرح سے ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کے منازل طے کررہی ہے اس کی بڑی وجہ جدید علوم ہیں اوران ترقی یافتہ ممالک کی اولین ترجیح انسانی وسائل پر خطیر رقم خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ ہونہار اورقابل لوگوں پروسائل اور توجہ دونوں ساتھ لگانا ہے تاکہ اپنے ملکی شعبوں میں مزید بہتری لاسکیں۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں انسانی وسائل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کا شدید فقدان ہے،بورڈنگ سسٹم بھی کمزور ہے۔اگر بات بلوچستان کی جائے تو اس غریب صوبے نے ہر شعبہ میں انتہائی قابل اور اعلیٰ پایہ کی شخصیات پیدا کی ہیں۔ سیاست، ادب، صحافت، وکلاء، ڈاکٹرز،اساتذہ، شعراء اور ادباء، سائنسی علوم سے لیکر فلاسفی تک پیدا کئے مگر ان کو نظرانداز کیا گیا۔



ٹرانسپورٹ اور ریلوے سروس کی بحالی کا رسک، انسانی جانوں کا خیال رکھاجائے

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر بس اورریلوے سروسز کی بحالی پر صوبائی حکومتوں میں شدید تحفظات پایا جاتا ہے اوروہ ایسی صورتحال میں ان کی بحالی کے حق میں نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد اب تک ٹرانسپورٹ اور ریلوے سروس مکمل طور پر بند ہیں جبکہ ایمرجنسی اور ضرورت کے پیش نظر ائیرپورٹ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے مگر معمول کے طور پر اس کی سروس معطل ہے۔ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان نے وفاقی وزارت ریلوے کی جانب سے ٹرین سروس کھولنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیاہے۔وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے قبل سندھ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، معیاری ضابطہ کار (ایس او پیز) پر عمل نہیں ہوا تو شیخ رشید کو استعفیٰ دینا ہوگا۔



افغانستان میں پراکسی وار، امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش

| وقتِ اشاعت :  


امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد یہ خدشہ موجود تھا کہ چند ممالک اس عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے پراکسی وار کرینگے کیونکہ نائن الیون کے بعد کابل میں ان کی گرفت مضبوط تھی جو افغانستان کے ذریعے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت اس وقت سب سے زیادہ امن عمل کی کامیابی سے پریشان دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آئے جس میں تمام افغان قیادت ایک پیج پر ہو۔



پنجاب میں شاپنگ مالزاور ٹرانسپورٹ کی بحالی، دیگرصوبوں کافیصلہ کیاہوگا؟

| وقتِ اشاعت :  


ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب کی بعض پالیسیاں دیگر صوبوں کیلئے ہمیشہ مثال بنتی ہیں جس میں گورننس، ترقیاتی منصوبے،تعلیم،صحت، سڑکیں خاص کر شامل ہیں جہاں پر بیوروکریسی کے کارناموں کی مثالیں دی جاتی ہیں نسبتاََ دوسرے صوبوں کی ترقی کی رفتار کے حوالے سے جہاں پر گورننس پر خاص سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔بہرحال پنجاب میں کئے گئے فیصلوں کو رول ماڈل کے طور پر دیگر صوبے بھی اپناتے ہیں کسی حد تک سندھ حکومت بھی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے نمایاں طور پر شامل ہے۔



لاغرمعیشت بحران کا مقابلہ نہیں کرسکتی

| وقتِ اشاعت :  


دنیا میں سب سے پہلے اولیت اپنی معاشی پالیسی کو دی جاتی ہے مگر اس کی کامیابی کی بنیاد بہترین پالیسی اور قانون کی عملداری ہے، سیاستدانوں سے لے کر تمام شعبوں پر اسی شعبہ سے وابستہ ماہرین کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ گوکہ چند ممالک میں سرمایہ دار طبقہ اقتدار پر براجمان ہونے کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کی تکمیل کیلئے اپنا سرمایہ اور اثرورسوخ لگاتا ہے تاکہ وہ اپنی تجارت اور کاروبار کو وسعت دے سکے مگر اس قدر بھی وہاں اتنی آزادی نہیں کہ عوامی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر انتخابات کی جیت کے بعد لوٹ کر اپنی تجوریاں بھریں بلکہ وہاں قانون کی کسی حد تک عملداری اور احتساب کا ایک شفاف عمل بھی موجود ہے۔



ایس اوپیز کی خلاف ورزیاں،متعددمارکیٹس سیل،تاجربرادری ذمہ داری کامظاہرہ کریں

| وقتِ اشاعت :  


ملک بھر میں جب سخت لاک ڈاؤن کافیصلہ کیا گیا تو سب سے پہلے تجارتی مراکز کی بندش کو یقینی بنایا گیا، اسی طرح دیگر سرکاری وغیر سرکاری محکموں میں ملازمین کی تعداد کو انتہائی کم رکھا گیا جبکہ صنعتوں،ریسٹورنٹس، تفریحی مقامات،کھیلوں کے میدان،فوڈپوائنٹس کو بھی اس لئے بند کیا گیا تاکہ کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلاؤ کو روکاجاسکے، ایک ماہ سے زائد تک یہ پابندیاں برقرار رہیں مگر دوسری جانب یہ خدشہ بھی اپنی جگہ برقرار تھا کہ ان پابندیوں کے باعث عوام کی بڑی تعداد روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے گی اور تاجر برادری بھی دیوالیہ ہوجائے گی۔