بلوچستان کے ساحلی علاقے اور سی پیک کے مرکز گوادر میں بیس سے زائددنوں سے احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں سب سے اہم تین مطالبات واضح طورپر نظر آتے ہیں، پہلا غیرقانونی ٹرالنگ کی بندش، پاک ایران سرحد پر کاروبار پر بندش کاخاتمہ اور تیسرا چیک پوسٹوں کے حوالے سے ہے ۔یہ لاینحل مسائل نہیں ہیں مگر انہیں ناقابل حل بنادیا گیا ہے جب مسائل کو حل نہیں کیا جائے گا تو یقینا احتجاج میں شدت ایک فطری عمل ہے کیونکہ گوادر پہلے سے ہی بہت سارے مسائل کا شکار ہے،ایک تو پانی کی بنیادی سہولت میسر نہیں، صحت کا بھی یہی حال ہے، تعلیمی اداروں میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
ملک میں روزانہ خبریں جو بنتی ہیں ان میں مہنگائی کا ذکر ضرور ہوتا ہے اچھی خبر سننے کے لیے سب ترس گئے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسی کوئی خبر بن ہی نہیں پارہی ،یقینا جو خبر بنتی ہے اسی پر زیادہ فوکس کیاجاتا ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے لوگوں کو سب سے زیادہ فکر معاش کا ہے جس طرح سے عوام موجودہ حالات کامقابلہ کررہے ہیں شاید تاریخ میں اس طرح انہوں نے ریکارڈ مہنگائی سمیت دیگر بحرانات دیکھیں ہوں یقینا یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ چندسالوں کے اندر مسائل حل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی جادو کی چھڑی سے معاشی بحران پر قابوپاتے ہوئے تمام اشیاء کی قیمتیں ایک ہی روز میں کم سطح پر آسکتی ہیں مگر فکریہ لاحق ہے کہ جو اعداد وشمار اور قرض کا حجم ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ کرپشن کرنے والوں کو کسی صورت این آر او نہیں ملے گا۔ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اس کے باوجود پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت مشکل صورتحال ہے تاہم 3 سے 4 ماہ میں مہنگائی ختم ہو گی۔ کم آمدنی والوں کو آٹا، گھی اور دالوں پر 30 فیصد سبسڈی دیں گے۔ آزاد ہو کر بھی ہمیں غلامی کرنی پڑی اور ہم اپنے آزاد فیصلے نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان وہ ملک بنے گا جو کسی کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے شہریوں کو گرین لائن بس منصوبے کا تحفہ دیا گیا۔کراچی میں ریپڈ ٹرانزٹ بس منصوبے کے تحت 5 روٹس کی منصوبہ بندی 2014 میں شروع کی گئی تھی اور پہلی گرین لائن کا تعمیراتی کام 2016 میں شروع ہوا۔2016 میں بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی 2 لائنز گرین لائن اور اورنج لائن کی تعمیر کا کام شروع ہوا تھا۔ ابتدائی منصوبے کے مطابق گرین لائن کا روٹ سرجانی ٹائون سے بزنس ریکارڈ روڈ تک تھا اور منصوبے کو 6 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کرنا تھا تاہم بعد ازاں منصوبے کے روٹ کو پہلے جامع کلاتھ اور پھر ٹاور تک بڑھا دیا گیا۔ اس طرح منصوبے کی لاگت بھی 27 ارب روپے سے بڑھ گئی۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان نے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو سے آج مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہونے کی صورت میں کل سے ایمرجنسی سروسز سے دستبردار ہونے اور کوئٹہ کے ریڈ زون میں دھرنا دینے اعلان کردیاہے۔ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے رہنما ڈاکٹر حنیف لونی نے سول اسپتال کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا۔ڈاکٹر حنیف لونی نے کہا کہ ہمارے تین بڑے مطالبات ہیں جن میں محکمہ صحت کی پالیسی، سروس اسٹرکچر اور اسپتالوں میں طبی سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزیراعلیٰ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہیں، ہمارے گرفتار ڈاکٹرز دس روز سے جیل میں ہیں مگر ہم نے عوام کی مشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے انتہائی قدم نہیں اٹھایا ۔
اپوزیشن جماعتوں نے ایک بار پھرمارچ کرنے کافیصلہ کرلیا اور اس باراس کا نام مہنگائی مارچ رکھا گیا ہے۔ یقینا ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور عوام کا غصہ بھی بہت زیادہ ہے مگر یہ مارچ کس قدر سنجیدگی کے ساتھ کیاجائے گا یہ بہت بڑا سوال ہے کیونکہ ماضی میں مولانافضل الرحمان اپنی جماعت کے ساتھ اسلام آباد میں تھے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے کوئی اہمیت اس دھرنے کو نہیں دی۔ بعدازاں مولانا فضل الرحمان نے دھرنا ختم کردیااور اب پیپلزپارٹی ٹرننگ پوائنٹ پر آگئی ہے
ملک میں بحرانات کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، آئے روز ایک بُری خبر عوام کے لیے ہوتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اس طرح کی خبریں شہ سرخیوں کی زینت بن ہی جاتی ہیں کیونکہ گورننس جب بہتر نہیں ہوگا اور بحرانات پر قابوپانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی واضح نظر نہیںآئے گی تو یقینا حکومتی کارکردگی پر سوالات ضرور اٹھائے جائینگے جس پر توجہ دینے کے حوالے سے بارہا کہاگیا مگر افسوس کہ اس پر توجہ دی جائے سنی کو اَن سنی کرکے یہ تسلیاں دی جارہی ہیں کہ صرف چھ مہینے عوام کو برداشت کرنا پڑے گا، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اس کے بعد ملک سے مہنگائی کا خاتمہ ضرور ہوگا لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ مہنگائی کے خاتمے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ۔
گوادر میں جاری دھرنے سے شہرت پانے والے جماعت اسلامی کے رہنماء ہدایت الرحمان میڈیا کی زینت بن چکے ہیں جو پہلے اتنے مقبول نہیں تھے مگر مولاناہدایت الرحمان نے گوادر کے مسائل بھرپور انداز میں سیکیورٹی اداروں کے سامنے رکھا اور مختلف احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرتے ہوئے سخت گیرموقف اپنایا تو گوادر اور مکران کے عوام کی بڑی تعدادمولاناہدایت الرحمان کی قیادت میں یکجا ہوگئی۔
گوادر کے لوگ گزشتہ کئی سالوں سے غیرقانونی ٹرالنگ سمیت دیگر مسائل پر سراپااحتجاج ہیں خاص کر ماہی گیر طبقہ تو غیر قانونی ٹرالنگ کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہوکر رہ گیا ہے ،اوپر سے دیگر مسائل ان کے لیے کھڑے کردیئے گئے ہیں بجائے یہ کہ گوادر کے عوام کو بہترین سہولیات فراہم کیے جاتے، ان کے روزگار کو تحفظ فراہم کیاجاتا اور درپیش مسائل کو حل کیاجاتا مزید ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا افسوسناک ہے۔ گوادر سی پیک کا جھومر ہے پہلے بھی اس کا تذکرہ کیاجاچکا ہے کہ سی پیک منصوبوں کے ذریعے سب سے پہلے گوادر اور پھر بلوچستان کے دیگر اضلاع کو فائدہ ملنا چاہئے مگر کئی برس گزر گئے بلوچستان کے حصے میں کچھ نہیں آیا ۔اس سے قبل جو چلنے والے میگا منصوبے ہیں ان میں بھی بلوچستان کے لوگوں کو کچھ نہیں دیا گیا
سیالکوٹ میں 3 دسمبر کو اسپورٹس گارمنٹ کی فیکٹری کے غیر مسلم سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر حملہ کردیا، پریانتھا کمارا جان بچانے کیلئے بالائی منزل پر بھاگے لیکن فیکٹری ورکرز نے پیچھا کیا اور چھت پر گھیر لیا۔انسانیت سوز خونی کھیل کو فیکٹری گارڈز روکنے میں ناکام رہے، فیکٹری ورکرز منیجر کو مارتے ہوئے نیچے لائے، مار مار کر جان سے ہی مار دیا، اسی پر بس نہ کیا، لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری سے باہر چوک پر لے گئے، ڈنڈے مارے، لاتیں ماریں اور پھر آگ لگا دی۔پاکستان میں یہ انتہائی المناک واقعہ رونما ہوا ہے جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ اس واقعے نے ایک المیہ پیدا کردیا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ کس قدر وحشت اور درندگی کی طرف جارہاہے کہ ایک انسان کو مارپیٹ کر ،پھر زندہ جلاکر اس کی ویڈیوزاور سیلفیاں لیتے رہے ۔