بلوچستان پاکستان کا وہ حصہ ہے جو نہ صرف رقبے کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ معدنی دولت اور جغرافیائی محل و قوع کے حوالے سے بھی باقی ماندہ پاکستان پر فوقیت رکھتا ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان ہی سب کچھ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلوچستان کی حقیقی پوزیشن و اہمیت یہ ہے تو بلوچستان تعمیر و ترقی کی منزلیں اور خوشحالی کے حوالے سے سب سے آگے ہونا چاہیے تھا۔لیکن ایسا کچھ نہیں بلوچستان کے لیے سب کچھ الٹا ہے۔دنیا میں ایک محاورہ بڑی شدت سے استعمال ہوتا ہے کہ امیر کے لیے الگ قانون اور غریب کے لیے الگ،بلوچستان کے لیے آئین اور قانون کے صفحے گرہن کی مانند ہیں۔
دنیا بھر میں رونماء ہو نے والی مو سمیاتی تبدیلی نے جہاں پاکستان کو متاثرہ کیا وہیں صوبہ بلو چستان کا کوئی ایسا ضلع نہیں جو سیلاب سے متاثرنہیں ہوا ہو،بلو چستان میں پہلے بھی بارشیں ہوتی رہی ہیں لیکن سال 2022 کے ماہ جون میں دنیاء بھر میں رونماء ہو نے والی مو سمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں شروع ہو نے والی شدید بارشوں نے جو تباہی مچائی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ،پاکستان میں طویل عرصے تک ہونے والی تیز بارشوں کے باعث بیشتر علاقے آج بھی سیلاب کی لپیٹ میں ہیں ،بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ 34 اضلاع میں سے زیادہ متاثر ہونے اضلاع میںطوفانی بارش کے ساتھ حفاظتی ڈیم میں شگاف پڑنے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی جس سے مکانات، باغات ،کھڑی فصلوں ،انفراسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچا سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہاں پہلے گھر نہیں بلکہ برساتی نالے تھے ۔
2008 میں سینٹرل جیل تربت میں دوران اسیری جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور بلوچ دانشور مولانا عبدالحق بلوچ (مرحوم)سے ہر دو دن بعد ملاقات ہوتی تھی۔میں اور شہید لالا منیر تربت جیل کی جس کوٹھی میں بند تھے، اْس کے ساتھ والے کمرے میں مولاناعبدالحق بلوچ بھی قید تھے۔تربت انتظامیہ نے مولاناعبدالحق بلوچ کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے سینٹرل جیل تربت میں بند کردیا تھا،چونکہ 18 فروری کو الیکشن ہونے والے تھے اور مولانا عبدالحق بلوچ پر الزام یہ تھا کہ وہ الیکشن میں گڑبڑ کرنے اور لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور مولاناعبدالحق بلوچ اس بات پر مسکرائے بھی اور کہا ”اے قوم ء َ پہ ووٹ نہ دئیگء ِ واستا من کجا داشت کناں ”۔(اس قوم کو ووٹ نہ دینے کے لیئے میں کیسے روک سکتا ہوں)۔
ملک میں اس وقت سیاسی اور عوامی ہیجان کا مرکز فوجی تعیناتی نظر آرہی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ فوجی سربراہ کا اپنا کردار ہوتا ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی جھکائو اکثر انہیں تعینات کرنے والی سیاسی حکومت کے تابع نہیں ہوتا لیکن اس وقت کا سب سے بڑا موضوع نئی آرمی چیف کی تعیناتی ہے ،جسے بحث بنا کر سیاسی تنازعات ابھارے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے نواز شریف کا یہ موقف سامنے آرہا ہے بھیجی گئی سمری میں میرٹ میں جو سب سے سینئر جنرل ہو ،اسے فوج کا سربراہ بنا دیا جائے لیکن تاحال نواز شریف کے اس خیال کوتقویت ملتی نظر نہیںآرہی جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکمران جماعت باالخصوص مسلم لیگ (ن)میں شاید اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جارہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سمری میں تاخیر بھی اسی لیے کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت نے ابھی تک اپنا واضح ذہن نہیں بنایا۔ اندرون خانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سینئر جنرل کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جارہا ہے، جس کے بعد نئی سینارٹی کے مطابق سمری حکومت کو ارسال کی جائے گی۔
لسبیلہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبا کے خلاف من گھڑت ایف آئی آردرج کراکے اپنی آمرانہ رویوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ طلبا گزشتہ تین روز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں تاحال یونیورسٹی سمیت لسبیلہ انتظامیہ کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ خبر نہ تو کسی میڈیا پر آئی ہے اور نہ ہی کسی معروف صحافی نے اسے رپورٹ کرنے کی زحمت کی ہے۔ اگر یوں ہی مسائل کو دباتے رہیں تو انکے نتائج بھیانک شکل میں نکل سکتے ہیں۔ لسبیلہ انتظامیہ اس مسئلے پر بات تک کرنے کو تیار نہیں جیسے ان کے نظر میں یہ ایک معمولی مسئلہ ہے۔ طلبا کی زندگیاں دائو پر لگا کر یونیورسٹی انتظامیہ جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس پر حکومت وقت کو نوٹس لینا چاہئے لیکن ابھی تک حکومت کو شایداس کا علم ہی نہیں۔ آخر کب تک بلوچ طلبا کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔
ولادیمیر لینن کے ہمراہ اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب کی قیادت کرنے والے لیون ٹراٹسکی کو آج سے 73 سال قبل، 21 اگست 1940ء کو میکسکو میں جلاوطنی کے دوران قتل کر دیا گیا۔بعد میں منظر عام پر آنے والی دستاویزات سے ثابت ہوا کہ سوویت انٹیلی جنس کے لئے کام کرنے والے کرائے کے قاتل رامن مرکاڈر نے اسٹالن کے حکم پر ٹراٹسکی کوقتل کیا تھا۔ تاریخ کا ستم دیکھیں کہ بالشویک انقلاب کے قائد کے قاتل کو اس کی خدمات کے اعتراف میں سٹالن نے سوویت یونین کے سب سے بڑے انعام’ آرڈر آف لینن‘ سے نوازا۔
خان محمود خان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے محراب خان جانشین کے طور پر مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بہت سی اقوام کی خود مختاری چھین کر ان کی آزادی ، غلامی میں بدل دی تھی۔ بہت سے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد 1838ء کو جب انگریز افغانستان پر حملہ کرنا چاہتے تھے تو وہاں پہنچنے کے لیے انھیں بلوچستان کے علاقوں سے گزرنا تھا اور اس سلسلے میں وہ درّہ بولان کے راستے کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تاہم انہیں درّہ بولان سے گزرنا اس لیے مشکل پڑ رہا تھا کیوں کہ حاکمِ قلات خان محراب خان افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے اپنی سرزمین کی سرحدوں کو استعمال کرنے کے لیے کسی طرح بھی راضی نہیں تھا۔
اورماڑہ شہر سے نکل کر جب ہم اورماڑہ کے دیہی علاقوں میں جارہے تھے تو میرے ذہن میں بار بار یہ سوال آرہا تھا کہ شہر میں تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں تو دیہی علاقوں میں کیا ہوگا؟ مکران کوسٹل ہائی وے سے جب ہم نے تاک لنک روڑ پر سفر شروع کیا تو لنک روڑ کی حالت بہتر دیکھ کر کچھ سکون ملی مگر ہمارا اگلا منزل اورماڑہ کے سکولز تھے جہاں تعلیمی صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا، کیونکہ ہم نے ماضی قریب میں یہ سنا تھا کہ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کئی گئی تھی۔