سیلاب سے تباہ حال بلوچستان

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میںحالیہ بارشیں ہر طرف ہولناکیوں اور تباہی کی کئی داستانیں رقم کررہی ہیں۔ مسلسل ہونے والی بارشوں اور ندی نالوں کے بپھر جانے کے بعد ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ چکے ہیں۔ گھر بچے ، نہ آنگن سب کچھ ملیا میٹ ہوگیا۔ کل تک جن بستیوں کے مکین ایک دوسرے کا دکھ درد… Read more »



ڈوبتا بلوچستان اور پاکستانی میڈیا

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کی 80 فیصد آبادی سیلاب کی زد میں آچکی ہے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبورہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 80 فیصد آبادی اس سیلاب سے متاثر ہوچکی ہے اور لوگ بے یار مدد گار پڑے ہوئے ہیں۔ حکومتی اقدامات متاثرین کو ابھی تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ تھی الجزیرہ رپورٹ جبکہ جیو نیوز کی 60 سیکنڈ کی رپورٹ کچھ یوں ہے سندھ اور بلوچستان بھی سیلابی ریلیوں سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں حکومت امدادی ٹیمیں متاثرین کی بروقت امداد میں مصروف۔ نہ حقائق واضح ہیں اور نہ ہی رپورٹ بذاتِ خود رپورٹنگ کے لئے متاثرہ علاقوں میں بھیجے گئے ہیں جہاں سے وہ زمینی حقائق دیکھ سکتے بالکل اپنے کیمرے سے ،وہ حقائق دنیا اور ہمارے بے حس حکمرانوں کو دکھاتے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ مناسب ہے کہ کیا ہمارے نام نہاد میڈیا مالکان اور رپورٹرز اس سیلابی بارشوں کے تباہی کے مناظر سوشل میڈیا میں نہیں دیکھتے یا انکے نظروں سے نہیں گزرے ہوں گے؟ یقیناً جواب ہاں میں ہوگا۔ تو پھر کیوں وہ ان حقائق کو سکرین پر نہیں دکھاتے۔



بلوچستان میں شددت پسندی کی رجحان

| وقتِ اشاعت :  


سنگت ظفر بلوچ بلوچستان کی محرومیوں کی بابت وقتاً فوقتاً لکھنے کی کوشش کرتاہوں۔ اسی امید کے ساتھ کہ شاید کسی بے حس جاںمیں حرکت آجائے اور کسی مردہ ضمیر میں بیداری آجائے۔ یہ کوشش ہربار ناکام ہوتی ہے ۔میری تحریروں کامحور بلوچستان ہوتا ہے کیونکہ میں یہاں سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے وجود… Read more »



بلوچستان کے سیلاب زدہ متاثرین کی مشکلات

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ اور سب سے زیادہ خط غربت کا شکار صوبہ ہے یہاں کے باسی بے روزگاری پسماندگی عدم ترقی اور محرومیوں سے دوچار ہوتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اب پورا صوبہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے مکانات اور گھر منہدم ہو چکے ہیں اور موجودہ تباہ کن سیلاب میں ان کا گھریلو سامان اور جمع پونجی تک بہہ چکے ہیں ۔پی ڈی ایم اے بلوچستان کے مطابق اب تک دو سو سے زائد انسانی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں ۔ بلوچستان کے لوگوں کے معاش کا انحصار مال مویشی تجارت اور زراعت پر ہے جو موجودہ تباہ کن سیلاب اور بارشوں کی بدولت مکمل تباہی سے دوچار یا یوں کہا جائے کہ مفلوج ہو چکے ہیں۔ سیلاب سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں جہاں بچے اور بوڑھے مرد وخواتین بے سروسامانی اور بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔



سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہمارے ارباب اختیار

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں اس سال توقع سے زیادہ بارشوں نے صوبے بھر کو جھل تھل کرکے رکھ کر دیا ہے۔ حالیہ بارشیں طویل قحط سالی کے بعد ہوئی ہیں یقینا شروع میں بارشوں سے بلوچستان کے قحط زدہ عوام خوش ہوئے تاہم مسلسل بارشوں کی وجہ سے ان کی خوشی بعد میں غم میں بدل گئی، مسلسل اور لگاتار بارشیں صوبے کیلئے رحمت کی بجائے زحمت یا عذاب بن کر عوام کو مصیبت میں مبتلا کر گئیں ۔صوبے کا مشرقی حصہ ہو یا جنوبی، شمالی ہو یامغربی ،بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکا ہے کوئٹہ جسے لٹل پیرس کہہ کر عوام کو لولی پاپ دیا جاتا رہا ہے وہاں بارشوں نے بھی بڑی تباہی مچائی۔



گم شدہ جمہوریت

| وقتِ اشاعت :  


جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہی جا سکتی ہے۔ آمریت کے برعکس اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔



بن گوریان

| وقتِ اشاعت :  


ملکی سیاست کے ہوشربا اور پر کیف دھنیں سن سن کر کان پک گئے ہیں یہ ٹکنالوجی کا دور ہے اونٹ اور خچر کا زمانہ گزر چکا ،آج دنیا کے ایک سرے پر جو واقعہ رونما ہوتی ہے لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے سیاستدان اب بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو نصف صدی پہلے پاکستانی عوام سنتے آرہے ہیں ایسے دلفریب نعرے لگانے والوں میں صوبہ بلوچستان کے لیڈر کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔بلوچستان میں دو انواع کے لیڈر پائے جاتے ہیں ایک طبقہ سرداراور نواب اور دوسرا خود کو قوم پرست کہتا ہے یہ دونوں طبقے قوم دوست نہیں ہیں نوابوں اور سرداروں کے علاقوں میں کہیں ڈھنگ کا کوئی اسکول یا اسپتال نظر نہیں آتا۔ ایسے کئی سردا راور نواب ہیں جو تین پشتوں سے اقتدار کے گھوڑے من کے مطابق دوڑاتے رہے لیکن ان کے علاقوں میں کوئی ڈسپنسری بھی نظر نہیں آتی۔یہ دونوں طبقے یعنی سردار نواب اور قوم پرست ہمیشہ مقتدرہ پر میزائلیں برساتے تو ہیں لیکن اصل میں دونوں مقتدرہ کے برخوردار ہیں ان دونوں طبقوں کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں شعور ان کا بڑا دشمن ہے ان کو فکر دامن گیرہے کہ شعور آگیا تو یہ سلسلہ نہیں چلے گا،اس لیے ہمیشہ الیکشن کے قریب آتے ہی عوامی مسیحا بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سنجیدہ فکر رکھنے والوں کی طرف سے انہیں دھیرے سے ہی صحیح لیکن سر گوشیوں میں سنائی ضرور دیتا ہے



منشیات اور اْس کی تباہ کاریاں

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان، جس کا نام سْن کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام میں گریویٹی کی سی ایک کشش پیدا ہوتی ہے اور کیوں نہ ہوں کیونکہ بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جسے قدرت نے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو کسی ملک یا قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تمام قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان، پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے کم ترقی یافتہ ہے۔ بہترین سیاسی قیادت کا فْقدان، علمی شعور کی کمی اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے بلوچستان کو اگر مسائلستان کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ تعلیم اور صحت کا فرسودہ نظام، روزگار اور معاش کے مستقل و مستند ذریعوں کا محدود ہونا ، ساحل اور میرین لائف کے تحفظ کا مسئلہ، جس سے بیشتر لوگوں کا معاش جْڑا ہوا ہے اور دورِ حاضر کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ہر ذی روح و ذی شعور انسان کا قومی، معاشرتی اور مذہبی فریضہ ہے وہ ” منشیات کی لعنت ” ہے۔



پاکستانی یونیورسٹیوں کے 75سال

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان بننے کے وقت، ملک کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی وراثت میں ملی، جو کہ ہندوستان راج کی 16 یونیورسٹیوں میں سے واحدتعلیمی درسگاہ تھی۔ 75 سال بعد، 120 سے زیادہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ تقریباً اتنی ہی تعداد میں غیر تسلیم شدہ ادارے جنہوں نے خود اپنے آپ کو تدریسی یونیورسٹی قرار دیا ہے وجود رکھتی ہیں۔ کالج کی تعداد 30-35 سے 1,500 یا اس سے زیادہ ہو گئی ہے لیکن ان سب کے باوجود ایسا لگتاہے کہ اعلیٰ (معیاری) تعلیم ناپید ہو چکی ہے ۔



آہ میرا بلوچستان ڈوب گیا

| وقتِ اشاعت :  


سیلاب سے رشتہ ہم بلوچستان کے باسیوں کا بہت پرانا ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے یہ سیلاب آتے جاتے دیکھے ہیں کبھی دریا سندھ کا پانی ہمیں ڈبوتا ہے تو کبھی ہمیں ناڑی بینک، کبھی دریائے مولا تو کبھی بلوچستان کے ناکارہ سیم شاخ ہمیں پانی برد کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے بلوچستان کے لوگوں کا گھر بار، اناج سب کچھ یہ پانی چھین لیتا ہے۔