|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2018

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد آج چار بجے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے قبل سیاسی رسی کشی کا فائنل راؤنڈ شروع ہوگیا۔

نمبر گیم سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوگیا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر چار بجے ہوگا۔ اجلاس کی صدارت اسپیکر راحیلہ حمید درانی کرینگی۔ اجلاس میں اپوزیشن اور منحرف ارکان وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خالف عدم اعتماد کی تحریک صوبائی اسمبلی میں پیش کرینگے۔

آئین کے آرٹیکل136اوراسمبلی رولز کے مطابق سب سے پہلے صوبائی اسمبلی کے کل اراکین کے بیس فیصد ارکان وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش کرینگے ۔

اس کے بعد اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا جائیگا اور تین یوم بعد اور سات ایام گزرنے سے قبل ا س قرارداد پر ووٹنگ کیلئے اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائیگا۔

اسپیکر راحیلہ درانی کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ حامی اور مخالف ارکان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائیگا۔

دونوں الگ الگ دروازے سے اسمبلی ہال سے باہر نکلیں گے۔ باہر نکلنے سے قبل مخالف اور حامی ارکان الگ الگ فہرست پر اپنے ناموں کا اندراج کراکر اس پر دستخط کرینگے۔

صوبائی اسمبلی کے کل اراکین کی اکثریت قرارداد کے حق میں ووٹ دے تو وزیراعلیٰ اپنے عہدے سے محروم ہوجائیگا۔

اگر کل اراکین کی اکثریت اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دے تو وزیراعلیٰ بدستور اقتدار میں رہے گا۔

عدم اعتماد کی تحریک منظور کرنے کیلئے اسمبلی میں موجود اراکین کی اکثریت کافی نہیں بلکہ کل اراکین کی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں چالیس سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے ۔ بلوچستان اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد65ہے ۔جن میں مسلم لیگ ن 21 کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔

باقی جماعتوں کی پوزیشن اس طرح ہے پشتونخواملی عوامی پارٹی 14،نیشنل پارٹی 11،جمعیت علمائے اسلام 8،مسلم لیگ ق5،بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)2،عوامی نیشنل پارٹی 1،بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)1،مجلس وحدت مسلمین 1اورآزاد رکن اسمبلی 1۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے65میں سے33ارکان کی ضرورت ہوگی۔

وزیراعلیٰ کی کھل کر حمایت کرنے والے ارکان کی تعداد 30جبکہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا کھل کر اعلان کرنے والوں کی تعداد29ہے۔

وزیراعلیٰ کی حمایت کرنے والوں میں مسلم لیگ ن کے محمد خان لہڑی، سردار در محمد ناصر، خواتین ارکان کشور جتک، ثمینہ خان اور انیتا عرفان شامل ہیں ۔

پشتونخوامیپ کے14اور نیشنل پارٹی کے11میں سے10ارکان بھی وزیراعلیٰ کے حامی ہیں۔ اس طرح وزیراعلیٰ سمیت ان کے حامیوں کی تعداد30ہوگئی ۔

تحریک عدم اعتماد کے حامی اپوزیشن ومنحرف ارکان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

مسلم لیگ ن کے 21میں سے9ارکان سرفراز بگٹی،سردار صالح بھوتانی، جان محمد جمالی،سرفراز چاکر ڈومکی، راحت فائق جمالی، ماجد ابڑو، پرنس احمد علی ، میر عامر رند اورطاہرمحمود وزیراعلیٰ کی مخالفت کا اعلان کرچکے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے تمام 8 ارکان مولانا عبدالواسع، عبدالمالک کاکڑ، مفتی گلاب، سردار عبدالرحمان کھیتران ،مفتی معاذ اللہ اور خلیل الرحمان دمڑ ، شاہدہ رؤف اور حسن بانو ،مسلم لیگ ق کے پانچوں جعفر مندوخیل عبدالقدوس بزنجو ،امان اللہ نوتیزئی،کریم نوشیروانی، رقیہ ہاشمی،بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دونوں ارکان سردار اختر مینگل اورحمل کلمتی،نیشنل پارٹی کے گرفتار رکن اسمبلی خالد لانگو،عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک اچکزئی،بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)کے ظفر اللہ زہری،مجلس وحدت مسلمین کے آغا سید رضااور آزاد رکن اسمبلی طارق کھوسہ ۔

اسپیکر اور5دیگر ارکان اظہار کھوسہ، اکبر آسکانی، عاصم کرد گیلو، جنگیز مری ،غلام دستگیر بادینی کی پوزیشن غیر واضح ہے۔تاہم ان میں بھی عاصم کرد گیلو کو بھی منحرف ارکان کے عشائیے میں دیکھا گیاہے۔

دوسری جانب اسمبلی اجلاس کے موقع پر سیکورٹی کے سخت حفاظتی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اسمبلی کے اندر کی تمام سیکورٹی پولیس اور اسپیشل برانچ کے پاس ہوگی جبکہ باہر کی سیکورٹی ایف سی کے سپر دکی گئی ہے۔

موجودہ اسمبلی کی کارروائی پہلی بار ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔

الیکٹرک میڈیا کے ہر ادارے سے بیورو چیف ،ایک رپورٹر اور ایک کیمرامین کو کوریج کی اجازت ہوگی اسی طرح پرنٹ میڈیا کے ہر ادارے سے بیوروچیف ،رپورٹر اور فوٹو گرافر کی کوریج کیلئے اجازت ہوگی ۔

ارکان اسمبلی اور میڈیا کے ارکان کو موبائل فون اندر لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ارکان اسمبلی کے محافظوں اور ہر قسم کے مہمانوں کے داخلے پر پابندی لگادی گئی۔

اسمبلی عمارت کے اندر صڑف وزیراعلی بلوچستان اوراسپیکر کی گاڑی کو داخلے کی اجازت ہوگی ۔دیگر تمام صوبائی وزراء ،ارکان اسمبلی کو پیدل اسمبلی ہال تک آنا ہوگا۔

دریں اثناء اسپیکر بلوچستان اسمبلی محترمہ راحیلہ حمید خان درانی نے اسمبلی کی سیکورٹی امور کے لئے اجلاس کی صدارت کی۔

اس موقع پر انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ بلوچستان معظم جاہ انصاری، ریجنل پولیس آفیسر وڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کیپٹن(ر) فرخ عتیق، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ داخلہ حمید اللہ ناصر، ایس پی اسپیشل برانچ اسد ناصر، سیکرٹری بلوچستان اسمبلی شمس الدین ، ڈی ایس پی بلوچستان اسمبلی طاہر اچکزئی بھی موجود تھے ۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی محترمہ راحیلہ حمید خان درانی نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلافف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے منعقدہ اسمبلی اجلاس کے موقع پر پولیس اسمبلی کے اندر اور با ہر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنائیں گے جس کے لئے تمام تیاریاں کر لی گئی ہیں ۔

انہوں نے سیکورٹی حکام کو ہدایت کی کہ جلاس کے دوران اسمبلی کے اندر اور باہر سیکورٹی معاملات کا جائزہ لینے اور موثر اقدامات کرنے سے متعلق تمام انتظامات مکمل کئے جائے تاکہ کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔

اس موقع پر آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری وڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے سیکورٹی امور کے حوالے سے اسپیکر کو بریفنگ دیں۔